Jane Kyun
جانے کیوں
ہندوستان کی تقسیم سے سال بھر قبل لاہور صوبہ گجرات کے علاقے "کیرا" کے گوالوں کو شکایت ہوئی کہ بیوپاری ان سے دودھ انتہائی سستے داموں خرید کر قریب کی بستیوں میں بہت مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں۔ انہیں مسلسل اس تکلیف دہ احساس کا سامنا تھا کہ ان کی محنت کا جائز معاوضہ نہیں دیا جا رہا۔ کچھ عرصہ تک اس مالی جبر کو برداشت کرنے کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ اس کا کوئی حل ہونا چاہیے۔ ایک صاحب حکمت نے مشورہ دیا کہ سارے گوالے مل کر اپنی ایک ڈسٹریبیوشن کمپنی بنا لیں اور بیوپاری کو منہا کرکے براہ راست گاہک کو دودھ فروخت کریں۔
کیرا کے گوالوں نے کیرا ڈسٹرکٹ کوآپریٹو ملک پروڈیوسر یونین کے نام سے ایک انجمن بنائی اور کل دو سو چوہتر 274 لیٹر دودھ سے ڈسٹریبیوشن کا آغاز کیا۔ یہ آغاز دنیا کی دودھ اور دودھ کی مصنوعات بنانے والی سب سے بڑی کمپنی امول AMUL کا ہے۔ جو آج تیرہ ہزار پانچ سو گاؤں کے چھتیس لاکھ گوالوں کی ملکیت ہے۔ سال 2022 میں امول کی پیداوار ساڑھے چھ ارب ڈالر سے زائد ہے۔ لوگوں کے اشتراک سے اپنی مدد آپ کے تحت اپنے مسائل حل کرتے ہوئے جمہور کے لیے خیر اور آسودہ حالی حاصل کرنے کی یہ ایک مثال ہے۔ ارلا فوڈز ڈنمارک سے لے کر تائیوان کوآپریٹو بنک تک دنیا کی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔
کل ایک رکشے کے پیچھے یہ اشتہار دیکھ کر جی میں خیال آیا کہ کاش ہماری ایسوسی ایشن اور یونینز بھی سیاست سے آگے بڑھ کر بھی ایسے کام کریں۔ تصور کریں لاہور میں ایک لاکھ سے زائد رکشہ والے ہوں گے۔ اگر ان میں سے دو چار ہزار بھی اس ایسوسی ایشن کے رکن ہوں تو محض چند سو روپے فی کس ملا کر یہ اوبر یا کریم جیسی لاہور رکشہ یا اس سے ملتے جلتے نام کی کوئی اپلیکیشن بنا لیں۔ ممبرز بنانے کا ان کو مسئلہ ہی نہیں۔
اپلیکیشن سے رکشہ والوں اور شہریوں کو جو سکون اور فوائد ہوں گے وہ ایک طرف چند ماہ میں اپلیکیشنز کی اپنی قدر کی کروڑوں میں ہوگی۔ شہر کے لوگ جو رکشہ والوں کی من مانی کی وجہ سے اوبر یا ان ڈرائیو کو ترجیح دینے لگے ہیں فکس اور قابل بھروسہ نرخ مہیا ہونے پر بے دھڑک استعمال کیا کریں گے سب کا بھلا ہوگا۔ صرف رکشہ والوں پر ہی کیا موقوف صاحب ہر بڑی مارکیٹ کی تنظیم اپنی آنلائین مارکیٹ بنا سکتی ہے۔ صنعتی ایسوسی ایشن صنعتوں اور صنعتی پیداوار کے تعارف کی اپلیکیشنز بنائیں۔ لیدر، فرنیچر، گوشت، پھل، سبزیوں اور دیگر تمام اشیاء ضرورت کے فروخت کنندگان ایسی اپلیکیشنز سے دنیا بھر سے گاہک تلاش کر سکتے ہیں۔
اس قدر غیر محدود امکانات کے جہاں میں جانے کیوں ہم مایوس اور پریشان بیٹھے ہیں۔