Chori Ke Unginat Fawaid
چوری کے ان گنت فوائد
جاپان کے ساحلوں سے لیکر کوریا، چین، ویت نام، فلپائن، ملیشیا، انڈونیشیا سے ہوتے ہوئے آسٹریلیا کے ساحلوں تک ہزاروں کلومیٹر کا سارا علاقہ سچے موتیوں کی پیداوار کے لیے مشہور ہے۔ ان میں سے جاپان، چین، اور آسٹریلیا تو کئی ارب ڈالر سالانہ کے موتی پیدا کرتے اور برآمد کرتے ہیں۔ لیکن اگر ان سب ممالک میں اس انڈسٹری کا جائزہ لیا جائے تو دستیاب معلومات کے مطابق انڈونیشیا واحد ملک ہے۔
جس میں باوجود کوشش کے یہ صنعت پنپ نہیں سکی اور اس کی وجہ ہے چوری سیپ کے فارمز کھلے سمندر میں ساحلوں کے ساتھ ساتھ بنائے جاتے ہیں۔ جن کی حفاظت کے لیے زیر آب کوئی باڑ یا جنگلہ لگانا بہت مشقت طلب اور مہنگا کام ہے۔ اس لیے ساری دنیا میں یہ فارم بغیر کسی حفاظتی باڑ کے بنائے جاتے ہیں۔ اور کہیں بھی بڑے پیمانے پر چوری کے خطرے کے بغیر بلا خوف و خطر ان کا کاروبار چل رہا ہے۔
لیکن جب انڈونیشیا میں لوگوں نے یہ کام شروع کیا تو وہاں مہربانوں نے دو دو سال کی محنت سے تیار سارے کے سارے فارم ہی چوری کر لیے۔ متعلقہ حکام کی بدعنوانی اور عدم دلچسپی کے باعث چوری کی وارداتوں سے نمٹا نہ جا سکا نتیجہ یہ ہوا کہ انڈونیشیا میں یہ صنعت پنپنے کی بجائے آغاز میں ہی دم توڑ گئی یوں چوری کی برکت سے ایک ملک ایک انتہائی منافع بخش صنعت سے محروم ہو گیا۔
وطن عزیز میں بجلی کی چوری کا قریب یہی عالم ہے۔ ہمارے ہاں مختلف علاقوں میں پندرہ سے پچاس فیصد تک بجلی چوری ہو رہی ہے۔ یہ چوری تقسیم کے دوران ہوتی ہے۔ جس میں بیشتر اوقات محکمہ کا عملہ برابر کا ذمہ دار ہے۔ ہم اپنے اردگرد روزانہ کی بنیاد پر ایسے مناظر دیکھتے ہیں کہ لیسکو کے ملازمین ایک لاکھ سے دو لاکھ روپے ماہانہ لے کر ایک لاکھ یونٹ تک چوری کرواتے ہیں۔
کراچی میں کنڈا سسٹم سےسب آگاہ ہیں۔ قبائلی علاقوں میں کئی مقامات پر تقریباً اسی فیصد بجلی کا بل سرے سے ادا ہی نہیں کیا جاتا۔ بجلی کی پیداوار میں ہوشربا بدعنوانی کی طویل داستان الگ سے رقم کرنے کے قابل ہے۔ اس بدعنوانی سے نہ صرف بجلی کا محکمہ اربوں روپے کے وسائل سے محروم ہوتا ہے۔ بلکہ سرکار کو ٹیکسز کی مد بھی بے پناہ نقصان پہنچایا جاتا ہے۔
نتیجہ یہ کہ پچھلے چار سال میں دوہزرا رب کے قریب گردشی قرضوں میں اضافہ ہوا ہے۔ بے شک اس کی اور بھی وجوہات ہیں۔ لیکن بڑی وجہ تقسیم کے دوران ہو رہی چوری ہی ہے۔ اس کے ساتھ چوری کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ جو بیچارے دیانتداری سے مکمل بل ادا کر رہے ہیں ان کے لیے بجلی ناقابل برداشت حد تک مہنگی ہو گئی ہے۔ اس وقت بی تھری B3 مد میں بجلی کا ایک یونٹ تئیس سے بڑھ کر تیس روپے ہو گیا ہے۔ اس رقم پر تقریباً دس روپے ٹیکسز علیحدہ ہیں۔
گویا اب ایک یونٹ صنعت کو عملی طور پر چالیس روپے سے زائد پڑ رہا جب کہ خطے کے دیگر ممالک میں فی یونٹ قیمت زیادہ سے زیادہ پاکستانی روپے میں سولہ روپے ہے۔ اب سوچیں کہ اگر ایک کلو ڈھلائی ہم کرتے ہیں، تو ہمیں صرف بجلی کی مد میں چین اور بھارت سے تیس روپے فی کلو گرام قیمت زیادہ پڑتی ہے۔ دیگر مسائل اس کے علاوہ ہیں۔ ایسے میں کس طرح ہماری صنعت دنیا کا مقابلہ کر سکتی ہے۔
اس بنیادی مسئلہ کے علاوہ چوری کا ایک اور سب سے بڑا نقصان یہ ہورہا ہے کہ محکمہ کے پاس اپنا تقسیم کا نظام بہتر کرنے کے لیے وسائل ہی نہیں۔ دن میں کئی کئی بار، کئی کئی گھنٹے بجلی صرف کمزور بلکہ گھٹیا نظام کی وجہ سے بند رہتی ہے۔ گویا فیکٹریاں مزدور، خام مال مشینیں حتی کہ بجلی بھی مہیا ہونے کے باوجود بند رہتی ہیں۔ محکمہ کا نقصان الگ ہوتا ہے اور کارخانہ دار علیحدہ پستا ہے۔ بلکہ اگر میں کہوں کہ بجلی کی آنکھ مچولی کارخانہ دار کے لیے کسی ذہنی عذاب سے کم نہیں تو بے جا نہ ہو گا۔
ہمارا مشاہدہ ہے کہ کسی بھی حکومت نے آج تک اس معاملہ کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ جو لوگ تو محکمہ کی ملی بھگت سے چوری کرتے ہیں۔ ان کو تو کبھی کوئی خطرہ ہی نہیں ہوتا، البتہ جو ان کی اجازت کے بغیر ہی فیض یاب ہوتے ہیں۔ ان کو پھر یہ گرفتار کرواتے ہیں۔ مگر ہماری ڈویژن میں واقع دیہات میں رات کے وقت عملہ نے جب بھی کبھی ٹیوب ویل پر چوری رنگے ہاتھوں پکڑی اور ذمہ داران گرفتار ہو کر حوالات میں بھی پہنچے اگلی صبح کسی عوامی نمائندے کی ایک کال پر سب کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔
یہی حال گیس کے محکمہ کا ہے۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ ملک بھر نکلنے والی ساٹھ فیصد گیس چوری ہوجاتی ہے۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے اندھیر نگری کے ایسے مناظر دیکھ رکھے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ لوگوں نے بڑے بڑے رقبوں میں متعدد فیکٹریاں بناکر کرایہ پر اٹھا رکھیں ہوتی، کرایہ عام فیکٹری کی نسبت تین چار گنا ہوتا مگر گیس کی لامحدود سپلائی مفت ملتی۔
آج کا ٹھیک سے علم نہیں مگر کچھ عرصہ قبل چالیس ارب روپے کی گیس سپلائی کی جاتی جبکہ بل کی مد میں صرف سولہ ارب اکٹھا ہوتے باقی سب چوری۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ملک میں اب کھاد بنانے کے لیے بھی گیس دستیاب نہیں۔ آپ لاکھ معاشی مصائب سے نکلنے کو بے تاب ہوں۔ سرتوڑ کوششیں کر رہے ہوں۔ اپنے تئیں آپ الٹے لٹک جائیں جب تک آپ یہ بجلی اور دوسرے وسائل کی چوری نہیں روکیں گے، آپ کبھی بھی پاکستان کو معاشی استحکام نہیں دے سکتے۔
خدا لگتی کہیں تو اس وقت پاکستان کی شہہ رگ کشمیر نہیں بجلی ہے۔ ملک بھر میں جتنے بھی دیانتدار پروفیشنلز ہیں۔ ان کو بجلی کے محکمہ میں لگایا جائے۔ پھر ایک زبردست مانیٹرنگ کا نظام وضع کیا جائے۔ ہنگامی طور پر ڈیم بنا کر سستی بجلی بنا کر سسٹم میں شامل کی جائے۔ جن محکمہ جات کو مفت بجلی دی جاتی ہے۔ اس کا خاتمہ کیا جائے۔
اور صنعت کو سستی بغیر رکاوٹ بجلی فراہم کی جائے تو امکان ہے کہ ہم مقامی پیداوار کو بڑھا کر درآمدات کو کم کر لیں اور تجارتی خسارہ قابو میں آ جائے۔ اگر آپ اب بھی ڈنگ ٹپاؤ ڈراموں سے حالات کو قابو کرنے کی کوشش کریں گے تو معذرت کے ساتھ بہت جلد معاملات آپ کے ہاتھ سے نکل جائیں گے۔ تب آپ کو بڑی تباہی کے لیے کسی بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں پڑے گی۔