Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Ibn e Fazil/
  4. Be Waqt

Be Waqt

بے وقعت

بیسیوں ٹن وزنی دیو ہیکل جہاز نے سینکڑوں سواریوں کے ساتھ قریب دوسو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے بھاگتے ہوئے، جب ہواؤں میں اڑان بھری تو اس وقت مجھے اپنا وجود بے وقعت سا لگا، تب آنکھیں بند کئے میں نے اس کائنات کے بحر بیکراں میں اس آہنی پرندے کے وجود کی مطابقت کا جائزہ لیا۔ ایک نکتے کے لکھو کھویں حصہ سے بھی کم، آہ بالکل یہی، میں نے بار دگر سوچا کہ۔

اگر یہ اتنا بڑا، سینکڑوں لوگوں پر مشتمل ہوائی دفتر ایک نکتہ کے لاکھویں حصہ سے بھی کم ہے تو پھر میری ذات تو واقعی بے وقعت ہے۔ کیا اس کائنات میں میری کوئی حیثیت نہیں۔ کیا میں واقعی بے وقعت ہوں، سوچتے ہوئے میں نے یاد کیا کہ چاہے اس آہنی پرندے کا وجود اس کائنات میں بہت ہی معمولی ہے۔ مگر اس سے لاکھوں گنا بڑے سیاروں اور کروڑوں گنا بڑے ستاروں کی مانند یہ نظام کائنات کا اسیر نہیں۔

یہ میرے حکم کا پابند ہے۔ اس پر میرے تخیل کی میرے علم کی حکمرانی ہے۔ بلکہ اسے تو بنایا ہی میں نے ہے۔ اس کی تجسیم اس کی ترتیب میرے علم کی رہین ہے۔ سیاروں ستاروں کے بحر بیکراں میں محو پرواز یہ بے نشاں نکتہ اس کائنات میں موجود اربوں سیاروں سے اس لحاظ سے اسے انفرادیت حاصل ہے۔ تو اگر یہ میری تخلیق ساری کائنات سے منفرد ہے تو میں کیسے بے وقعت ہوگیا۔

نہیں نہیں میں بے وقعت نہیں، کائنات میں حجم کی اہمیت نہیں، حکمرانی اہم ہے۔ ہزاروں کلوگرام کے ہاتھی پر بارہ سال کا بچہ بیٹھ کر اسے اپنی مرضی سے چلارہا ہوتا ہے۔ وقعت ہاتھی کی نہیں اہم بچہ ہے۔ اہم اونٹ نہیں وہ بدھو ہے جو بے لباس ننگے پاؤں بھی ہو تو اونٹ کی نکیل اس کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ وہ اسے اپنی مرضی سے چلا سکتا ہے۔ اپنا بوجھ اس پر لاد سکتا ہے۔

بات کچھ سمجھ میں آرہی ہے۔ جو صاحب فکر ہے، صاحب علم ہے، جس کی رائے ہے، جس کی مرضی وہ اپنی حکمرانی قائم کرسکتا ہے۔ اور جہاں جہاں اس کی حکمرانی ہے وہ اس کی اپنی کائنات ہے۔ اس کائنات کے اندر وہ بے وقعت نہیں۔ بلکہ اس کائنات میں سب سے زیادہ اہم وہی ہے، تو کیا میں صاحب علم ہوں۔ کیا میری کوئی رائے ہے۔ میری مرضی کہیں چلتی ہے۔ کوئی میری کائنات ہے۔

اگر نہیں تو پھر واقعی میں بے وقعت ہوں میں اونٹ ہوں۔ یا ہاتھی ہوں یا بہت بڑا کوئی ستارہ۔ میری کوئی مرضی نہیں۔ میرے پاس کوئی علم نہیں۔ تو میں بے وقعت ہوں۔ کسی علم والے کی۔ کسی رائے والے کسی جرات والے کی ریاعا ہوں۔ اس کا اونٹ ہوں میری نکیل اس کے ہاتھ میں ہے اور اس کابوجھ میری پیٹھ پر۔

Check Also

Mehar o Wafa Ke Baab

By Ali Akbar Natiq