Friday, 29 March 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Ibn e Fazil/
  4. Be Niazi

Be Niazi

بے نیازی

ذہین احمد کے والد بابا ہدایت کا یہ معمول تھا کہ وہ اہتمام کے ساتھ ذہین احمد کو فجر کی نماز کے لیے ساتھ لیکر جاتے۔ ذہین احمد اب نویں جماعت میں ہیں۔ ساتھ ہی ہر روز مغرب کی نماز کے بعد اسی مسجد میں قرآن پاک کے ترجمہ اور تفسیر کی جماعت میں بھی باقاعدہ شرکت کرتے ہیں جس کے معلم خود بابا ہدایت ہی ہیں۔

ذہین احمد اور بابا ہدایت کبھی کبھار اس قدر جلد مسجد جاپہنچتے ہیں کہ ابھی فجر کی اذان بھی نہیں دی گئی ہوتی۔ بلکہ کئی بار بابا ہدایت کے کہنے پر اذان بھی ذہین احمد ہی دیتے ہیں۔ روزانہ کے اس معمول میں ذہین احمد دیکھتے ہیں کہ ایک نمازی ہمیشہ مسجد میں ان سے پہلے ہی موجود ہوتے ہیں۔ وہ دوسری صف کے پچھلی طرف ایستادہ ستون کے ساتھ ٹیک لگائے تسبیحات کررہے ہوتے ہیں۔

بابا یہ بزرگ تو مسجد میں ہمیشہ پہلے سے ہی موجود ہوتے ہیں اور بہت ہی زیادہ نیک معلوم ہوتے ہیں پھر یہ پہلی صف میں بیٹھنے کیلئے تردد کیوں نہیں کرتے۔ ذہین احمد نے حال ہی میں بابا سے سیکھا تھا کہ جماعت کی اول صف میں نماز پڑھنے کا ثواب بہت زیادہ ہے۔ بلکہ انہیں بتایا گیا کہ اگر نمازیوں کو پہلی صف میں نماز پڑھنے کے فضائل کا درست ادراک ہوجائے تو یہ اس بابت آپس میں باقاعدہ جھگڑا شروع کر دیں۔ اس تناظر میں ذہین احمد کا سوال بے حد اہم تھا۔

ذہین احمد وہ ہماری گلی کی نکڑ پر سمیع چاچا کی دکان تھی نا۔ جب انکا کام بڑھا تو انہوں نے کیا کیا۔ جواب دینے کی بجائے بابا نے الٹا ذہین احمد سے ہی سوال پوچھ ڈالا۔

انہوں نے بڑی شاہراہ پر بڑی دکان بنا لی ہے نا بابا۔ ذہین احمد نے فوراً جواب دیا۔ اور اب ان کی چھوڑی ہوئی دکان میں ابرار چاچا نے دکان بنالی ہے۔ بابا نے جواب کی تکمیل کرتے ہوئے بات جاری رکھی۔ بالکل یہی دستورہے ہر جگہ۔ جن خوش نصیبوں کو اللہ کریم کی لو لگ جاتی ہے وہ عشق الہی میں پھر ثواب کی حرص سے آگے چلے جاتے ہیں۔ حصولِ ثواب کی جگہ پھر وہ نئے آنے والوں کے لیے خالی کردیتے ہیں۔ انہیں پھر یہ لگتا ہے کہ اوروں کو ان کی بجائے ثواب کی زیادہ ضرورت ہے۔ یہ بے نیازی کا مرتبہ ہوتا ہے۔ جو اللہ کریم اپنے خاص بندوں کو عطاء فرماتے ہیں۔ ایسے لوگ بہت کم مگر اللہ کریم کے خاص الخاص بندے بن جاتے ہیں۔

بے نیازی کا تاج اللہ کریم کا انسانوں کے لیے سب سے بڑا انعام ہے۔ مگریہ منزل ہے بہت کٹھن۔ بڑی کڑی تپسیا اور مشکل امتحانوں میں پاس ہونے کے بعد ملتا ہے یہ تاج۔۔ یہ جو بزرگ ہیں نا انہوں نے یہی بے نیازی کا تاج پہن رکھا ہے۔

بابا کیا مجھے بھی مل سکتا ہے۔ ذہین احمد کی آنکھوں میں بلا کی چمک تھی۔ کیوں نہیں میرے بچے۔۔ بالکل مل سکتا ہے۔ ہر اس بندے کو مل سکتا ہے جو خدا اور اس کی مخلوق کو خود پر مقدم کرلے۔ اس کا ہدف اس کا اوڑھنا بچھونا اللہ کریم کے احکامات اور رسول کرم کا اسوہ حیات ہو۔ جس کا مقصد حیات اس کی ذات نہیں بلکہ اس کا معاشرہ ہو۔ جو اپنا سکھ تیج کر اوروں کے دکھ کا مداوا کرتا پھرے۔ جواپنے آقا کی ایک پکار پر گھر کی ہرچیز دان کرنے کا جذبہ رکھتا ہو۔ جو آدھی دنیا کا حاکم ہوتے ہوئے غلام کی سواری کی باگ پکڑ کرچلنے کو عار نہ سمجھے۔ جو جب ضرورت پڑے اپنے مال سے کبھی مسجد کے لیے جگہ اور کبھی کنویں کا پانی خرید کر سب کے لیے وقف کرسکے۔

بس تو پھر بابا آج سے مجھے بھی ایسا ہی بننا ہے۔ ذہین احمد نے فیصلہ کرتے ہوئے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے۔۔ اللہ کریم میں آپ سے عزت، شہرت اور دولت کی بجائے بے نیازی کا سوال کرتا ہوں۔۔ میرے مولا مجھے اپنے خزانے سے بے نیازی عطاء فرما۔۔

بابا ہدایات نے رندھی ہوئی آواز میں پورا جوش شامل کرتے ہوئے کہا۔ آمین الھم آمین۔

Check Also

Som Aur Seyam Mein Farq

By Toqeer Bhumla