Thursday, 28 March 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Ibn e Fazil/
  4. Ayen Iss Eid Par Khud Ko Eidi Dein

Ayen Iss Eid Par Khud Ko Eidi Dein

آئیں اس عید پر خود کو عیدی دیں

میری رائے میں کسی بھی شخص کے لئے سب سے مشکل بلکہ جانگسل کام مذہب کا تبدیل کرنا ہوسکتا ہے۔ معلوم انسانی تاریخ میں بلحاظ کردار شاید وہ خراب ترین لوگوں کا معاشرہ تھا۔ جس میں آقا کریم ﷺ کا ظہور ہوا۔ حالی نے ان کے اطوار کا نقشہ یوں کھینچا ہے۔

چلن ان کے جتنے تھے سب وحشیانہ

ہر اِک لُوٹ اور مار میں تھا یگانہ

فسادوں میں کٹتا تھا ان کا زمانہ

نہ تھا کوئی قانون کا تازیانہ

وہ تھے قتل و غارت میں چالاک ایسے

درندے ہوں جنگل میں بے باک جیسے۔

اب سوچیں کہ وہ خراب ترین لوگ دنیا کے بہترین معاشرے میں ڈھل گئے۔ کیسے؟ اس قدر بڑی تبدیلی کیوں کر ممکن ہوئی؟ یقیناً آقا کریم ﷺ کی ذات والا صفات، آپ کا خلوص اور اعلیٰ ترین اخلاق بہت بڑا عنصر تھا تاہم ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ ان لوگوں نے آقا ﷺ کے پیغام پر غور کیا۔ اس پیغام عالیشان کو اپنے علم اور تجربہ کی بنا پر پرکھا اس کا تجزیہ کیا اور پھر اس کو درست پاتے ہوئے اس پر لبیک کہا۔

اگرچہ ان میں سے بیشتر کا پہلا ردعمل یہ تھا کہ ہم اپنے باپ دادا کا مذہب کیسے چھوڑ دیں؟ لیکن اس کے باوجود لاکھوں لوگوں نے غوروتجزیہ کی بنیاد پر باپ دادا کا دین چھوڑ کر دین اسلام کو قبول کرلیا، گویا غور کرنا، تجزیہ کرنا، درست اور غلط کا خود سے تعین کرنا انسانوں اور معاشروں کے لیے اسی قدر اہم ہوتا ہے کہ اس کی برکت سے مشرکینِ عرب، اصحابِ رسول بن گئے۔ اسی لیے خالقِ کائنات نے قرآن کریم میں پانچ سو سے زائد بار انسانوں کو غور وفکر کی دعوت دی ہے۔

اب سوال یہ ہے کیا ہمیں بطور معاشرہ غور کی عادت ہے؟ کیا ہم اپنی معاشرت، معیشت اور دیگر مسائل پر کماحقہ غور کرتے ہیں؟ میرا نرم سے نرم جواب بھی ہوگا کہ ہرگز نہیں۔ وہ تو خدا کا شکر ہے کہ ہمیں مذہب کی تبدیلی کا معاملہ درپیش نہیں مگر غور وفکر کی صلاحیت سے عاری ہونے کی وجہ سے ہم میں سے بیشتر مذہب کے نام پر عجیب وغریب رسوم و زوائد پر عمل پیرا ہیں۔

لیکن اسی ایک کمی کی وجہ سے ہم زندگی کے ہر شعبے میں پریشان وزبوں حال ہیں۔ اب سیاسی معاملات کو ہی لے لیجیے۔ اپنے اپنے رہنماؤں کو دیوتا بنا کر من مندر میں ان کی مورتیاں ایسے سجا رکھی ہیں کہ ان کی کسی بڑی اور واضح غلطی پر بات کرنے کو آمادہ نہیں چہ جائے کہ ان کی حکمت و محبت سے درست راہنمائی کریں۔

بیشتر جماعتوں میں تو حال یہ ہے کہ کہنہ مشق زیرک بزرگ اپنی عمروتجربہ سے آدھے نوجوانوں کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں کہ جوان مذکور اس تصوراتی دیوتا کا بیٹا یا بیٹی ہے۔ مزید برآں سمجھ، برداشت اور اخلاقیات کا عالم یہ ہے کسی بات پر فقط گمان ہی ہو کہ ہمارے دیوتا کے خلاف ہے، میں بنا سوچے سمجھے شب وستم اور کردار کشی شروع۔

عملی طور پر عالم یہ ہے کہ سنجیدہ فکر بزرگان جو کسی معاشرے کی فکری اساس ہوتے ہیں، باقاعدہ تلقین وراہنمائی سے بھی دست کش ہو چکے ہیں۔ سوچیں اگر ہم فکر کے عادی ہوتے تو کم از کم اتنا تو سوچتے کہ ہمارا مخالف راہنما عبداللہ بن ابی سے تو گیا گذرا نہیں ہوگا نا، اور اس کا بھی آقا کریم ﷺ نے جنازہ تک پڑھا دیا تھا۔ یہاں تو فقط سیاسی نظریات فرق ہیں۔

اگر ہم سوچنے کے عادی ہوتے تو ہمیں یہ تو علم ہوتا کہ ہمارا بنیادی مسئلہ کیا ہے؟ ہمیں ہر سال قرضے کیوں لینے پڑتے ہیں، اور پھر یہ قرضوں کا سلسلہ کیوں بڑھتا ہی جارہا ہے۔ اور اس کا کیا حل ہے؟ پھر ہم اپنے راہنماؤں کو اصل مسائل کے حل پر مجبور کرتے۔ اگر ہم سوچتے تو ہمیں اندازہ ہوتا کہ ہمارا اصل مسئلہ نااہلی ہے۔ ہمارا اصل مسئلہ تن آسانی اور شارٹ کٹ تو سکسس ہے۔

ہمارا اصل مسئلہ معاشرتی عدم انصاف ہے۔ ہمارا اصل مسئلہ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہے۔ اور ہمارا اصل مسئلہ ہنرمند ہاتھوں کی کمی ہے۔ چونکہ ہمارے پاس نہ ہنرمندوں کی تعداد اتنی ہے کہ ہم اپنی ضرورت کی اشیاء بنا سکیں، اور نہ ان کی استعداد ایسی ہے کہ عالمی معیار کی مصنوعات تیار کی جاسکیں۔

یہی وجہ ہے کہ ہماری درآمدات برآمدات سے زیادہ ہیں اور پچھلے پچاس سال میں ایک بھی راہنما ایسا بتائیں جس نے انسانوں پر سرمایہ کاری کی ہو۔ جس نے جنگی بنیادوں پر ٹیکنیکل کالجز یا سکول بنائے ہو؟ ہنرمند ہوں گے تو کارخانے نہ بھی لگیں وہ دوسرے ممالک میں جاکر آپ کو زرمبادلہ کما کر بھیج سکتے ہیں۔

ہمارے وزراء سیروسیاحت کی غرض سے سرکاری خرچ پر ساری دنیا گھوم آتے ہیں اور آکر ہمیں بتاتے ہیں کہ جرمنی میں اسی فیصد طلبا ہائی سکول کے بعد ہنرمندی سیکھنے کے لیے ٹیکنیکل تربیتی اداروں میں جاتے ہیں جبکہ اپنے ملک میں حال یہ ہے کہ ملک بھر کھیت میں کام کرنے والے کسانوں کی باقاعدہ تربیت کا کوئی کورس یا ادارہ نہیں۔

بس میری یہی گذارش ہے کہ ہم نے آج سے غور وفکر کی عادت کو اپنانا ہے، آج سے ہم نے گمان کے بت توڑ کر انسانوں کو ان کی اہلیت کی بنا پر مسند پسندیدگی پر بٹھانا ہے۔ ہم نے اعلیٰ اخلاقی اقدار اپنانا ہیں۔ ہم نے صرف مسائل اور ان کے حل پر بات کرنا ہے لوگوں کی ذات پر نہیں۔ آئیں خود کو اچھی عادات کی عیدی دیتے ہیں۔ اللہ کریم ہمارا اور ہمارے ملک کا نگہبان ہو۔

Check Also

Abba Ji Ke Naam

By Qasim Taj