Anmol Khazane Khwabeeda Waris (3)
انمول خزانے خوابیدہ وارث (3)
دنیا بھر میں سالانہ بیس لاکھ ٹن اون پیدا ہوتی یے جس کی مالیت قریب ساڑھے سات سو ارب روپے بنتی ہے۔ اون کے معیار اور قیمت کا انحصار اس کے ریشے کی موٹائی اور اس کی ملائیمت پر ہوتا ہے۔ اون میں سب سے زیادہ نرم اور بیش قدر اون کیش مِیرے cashmere وول مانی جاتی ہے۔ یہ مہنگی اور مقدار میں کم ہوتی ہے۔
میرینومعیار اور قیمت میں کیش مِیرے سے کچھ کم ہے۔ مگریہ بہت زیادہ مقدار میں پیدا ہوتی ہے۔ میرینو بھیڑوں کی ایک نسل ریمبلے میرینو Rambouillet Merino سے حاصل کی جاتی ہے جسے خاص طور پر عمدہ اون کے حصول کے لیے دہائیوں کی محنت اور منصوبہ بندی سے تخلیق کیا گیا ہے۔ یورپ، امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اوربھارت میں اون کے تجارتی پیمانے پر حصول کے لیے انہیں بھیڑوں یا ان سے نسل کشی شدہ مقامی نسلوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں خیبر پختون خواہ کی حکومت نے کچھ عرصہ قبل مختلف علاقوں میں سرکاری باڑے بنا کر مقامی نسلوں کی ریمبلے میرینو سے کراس بریڈز حاصل کیں۔ آپ جان کر حیران ہوں گے مقامی نسلوں سے نسل کشی کے بعد حاصل کی گئی بھیڑوں کی اون ریمبلے میرینو سے بھی اعلیٰ معیار کی نکلی۔ مگر افسوس کہ ہنرمندوں کی قلت، شوق و ولولے کی کمی، اور مقامی سطح پر جدید ٹیکنالوجی کی عدم دستیابی کی وجہ سے اب تک ان بھیڑوں سے حاصل شدہ کروڑوں روپے مالیت کی زبردست اون سے ایک روپےکا فائدہ حاصل نہیں کیا جاسکا۔
نا تجربہ کاری کا عالم یہ تھا کہ اون حاصل کرنے سے پہلے بھیڑوں کی مناسب صفائی نہیں کی گئی جس سے اون میں مٹی، جڑی بوٹیوں اور تنکوں کی مقدار اس قدر زیادہ ہے کہ وطن عزیز میں دستیاب مشینوں پر تاحال اسے صاف کرکے قابل استعمال نہیں بنایا جاسکا۔ لیکن یہ اتنی بڑی بات نہیں۔ ہم سب غلطیوں سے ہی سیکھتے ہیں۔ آئندہ امید ہے مناسب صفائی کے بعد بہتر کوالٹی کی اون حاصل کی جاسکے گی۔
واقفان حال کا کہنا ہے کہ جس معیار کی یہ اون ہے اس سے مناسب طریقے سے ٹاپس بنا کر وول یارن میں منتقل کرلیا جائے تو عالمی مارکیٹ میں اس کے فی کلو دام پندرہ ہزار تک حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ ایک بھیڑ سے سالانہ چار سے آٹھ کلو تک اون مل سکتی ہے۔ اگر بھیڑوال کو آدھی قیمت بھی ملے تو بھی وہ ایک سال میں ایک بھیڑ سے بھیڑ کی کل قیمت سے زیادہ اون اتار کر بیچ سکتا ہے۔ اب سوچیں کہ اگر پہاڑوں پر لوگ گھروں میں چار چھ یہ والی بھیڑیں پال لیں تو ان کی سالانہ آمدنی میں کس قدر بہتری آسکتی ہے اور اسی طرح بکروال جو ہزاروں بکریاں ایک وقت میں پالتے ہیں انہیں کتنی آسانی سے آسودہ حال کیا جاسکتا ہے۔
کارخانہ قدرت کا ہر کام بے عیب ہے۔ اونچے پہاڑوں پرجب سردیوں میں برفباری ہوتی ہے اور درجہ حرارت نقطہ انجماد سے بھی نیچے گر جاتا تو ایسے بکریوں میں موسم کی شدت کا مقابلہ کرنے کے لیے ان کی جلد سے اضافی بال نکلتے ہیں۔ جو جسم پر پہلے سے موجود بالوں سے باریک ہوتے ہیں۔ ان بالوں کی عمر چند ماہ ہوتی ہے۔ اور جیسے ہی درجہ حرارت بڑھنے لگتا ہے یہ خود بخود جلد سے جدا ہو کر جھڑنے لگتے ہیں۔
سمجھدار لوگ کنگھی یا برش کے ذریعے ان بالوں کو جانوروں کے جسم سے اتار لیتے ہیں۔ یہ دنیا کی سب سے اچھے معیار کی کیش مِیرے cashmere اون ہے۔ اس کے ریشے کی موٹائی سب سے کم اور ملائیمت سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس کام کا آغاز چونکہ خطہ جنت نظیر سے ہوا تھا اس لیے اس کے نام کی مناسبت سے اسے کیش مِیرے کہتے ہیں۔
چین دنیا میں سب سے زیادہ کیش مِیرے پیدا کرنے والا ملک ہے۔ دوسرے نمبر پر بھارت ہے۔ جہاں باقاعدہ بکروالوں کو تربیت دی جاتی ہے۔ میرینو کی پندرہ ہزاروں فی کلو گرام کے مقابلے میں کیش مِیرے کی قیمت بائیس سے پچیس ہزار روپے فی کلو گرام تک ہوتی ہے۔ جب کہ اس سے تیار شدہ اشیاء اور بھی مہنگی ہیں۔ ہم نے حال ہی میں دورہ سکردو کے دوران ایک بھارتی شال دیکھی۔ قریب ایک پاؤ وزن کی شال کی قیمت دولاکھ روپے بتائی گئی۔
ہمارے ناقص علم کے مطابق پرانے وقتوں میں پاکستان کے شمالی علاقوں میں بھی لوگ کیش مِیرے کی پیداوار کرتے تھے، مگر شاید تن آسانی اور تاجروں کی بلیک میلنگ کی وجہ سے آہستہ آہستہ یہ کام بالکل ختم ہوگیا ہے۔
قوموں کے عروج و زوال میں ان کے اجتماعی رویوں کا سب بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ جب ہر شخص صرف اپنی ذات کا ہی سوچے گا اور دوسروں کے جائز منافع سے بھی محروم کرتے ہوئے اپنے مفادات کو ہی بڑھانے کے لیے کسی بھی حد تک چلا جائے گا تو سارا نظام ہی ختم ہوجائے گا۔ دنیا میں صرف وہی معاشرے پھلتے پھولتے ہیں جہاں لوگ ایک دوسرے کا خیال کرتے ہوئے مل بانٹ کرکھاتے ہیں۔
بات پھر وہی ہے کہ ہر طرف کام کے مواقع ہی مواقع ہیں اور آدھا ملک نوکریاں تلاش کررہا ہے۔ عزیز ہم وطنوں جب سب لوگ نوکریوں کے حصول کیلئے کمربستہ ہوں گے تو نوکریاں دینے والے کیا کوہ قاف سے آئیں گے۔