Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ibn e Fazil
  4. Aik Aik Chappu Thaam Lo

Aik Aik Chappu Thaam Lo

ایک ایک چپو تھام لو

گھر میں کسی کو بخار ہو تو گھر کے افراد مناسب سی توجہ دیتے ہیں۔ کسی نے ساتھ لیجا کر دوا لادی یا تھوڑی دیر کے لیے پاس بیٹھ کر دلجوئی کر دی لیکن کاروبار، ملازمت سمیت معمول کے کام سب کے چلتے رہتے ہیں۔ لیکن خدا نخواستہ اگر کسی فرد کو کوئی بڑا مسئلہ درپیش ہو جائے جیسے کوئی خطرناک حادثہ یا فالج وغیرہ تو سب لوگ سب کام چھوڑ چھاڑ کر پوری توجہ اور تمام وسائل مہیا کر کے اس مریض کی بہتری کی تگ و دو میں لگ جاتے ہیں اور اس وقت تک معمولاتِ زندگی بحال نہیں ہوتے جب تک کہ مذکورہ شخص موت و حیات کی کشمکش سے نکل نہ جائے۔

وطن عزیز کی معاشی حالت بالکل ایسی ہی ہے جیسے کسی جاں بلب مریض کی ہو۔ ایسے میں سب سے پہلے سرکار اور پھر اپوزیشن اور اس کے بعد ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ جہاں تک ہو سکے اپنے معمولات میں سے وقت نکال کر کچھ لمحات اس جاں بلب مریض کی بہتری کے لیے صرف کریں۔ جیسے کسی مریض کو خون چاہیے ہوتا ہے تو ہر کوئی بھاگ دوڑ کر کے خون کا بندوبست کرتا ہے، یا کسی مریض کو سٹنٹ یا امپلانٹ چاہیے تو اس کا بندوبست کیا جاتا ہے، بالکل ایسے ہی اس مریض کی ضرورت ہے ڈالرز۔

آپ کو اگر اس مریض سے محبت ہے تو یہ مت دیکھیں کہ ڈاکٹر آپ کی پسند کا ہے یا نہیں؟ آپ دوا کا بندوبست کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ پسند کے ڈاکٹر کے انتظار میں مریض کی سانسیں اکھڑنا شروع ہو جائیں۔ ڈالر حاصل کرنے کے لیے سب سے فوری طریقہ آئی ٹی کا میدان ہے۔ جیسا کہ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ بھارت نے گزشتہ سال سافٹ ویئر کی برآمدات سے ڈھائی سو ارب ڈالر زرمبادلہ حاصل کیا جبکہ ہم نے صرف دو ارب ڈالر۔

ہم اس سے پانچ گنا کم آبادی والا ملک ہیں تو ہمیں کم از کم چالیس ارب ڈالر تو کمانا چاہئیں۔ چالیس تو چھوڑیں جی اگر ہم صرف دس ارب ڈالر ہی مزید اس سیکٹر سے حاصل کر لیں تو ہمارے سروں سے خسارے کی لٹکتی تلوار ہٹ جائے گی۔ کیا رکاوٹ ہے جناب؟ سینکڑوں تعلیمی ادارے ہزاروں بی سی ایس پیدا کر رہے ہیں تو کیوں اس رفتار میں بہتری نہیں آ رہی؟

سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے افراد کی قابلیت کا معیار وہ نہیں جو عالمی منڈی میں سافٹ ویئر برآمد کے لیے چاہیے اور پھر ہمارے لوگوں کا رویہ بھی انتہائی خام ہے۔ سہل پسندی غالب ہے وقت ضائع کرتے ہیں مگر اپنی صلاحیتوں کو بہتر نہیں کرتے۔ ہمارا خیال ہے کہ اچھے تعلیمی اداروں کے اساتذہ میں کم از کم ایک ایسا فرد ضرور ہونا چاہیے جو عملی طور پر اس میدان میں کام کر چکا ہو اور طلبا کی ڈگری دینے سے پہلے ہی اس قدر تربیت کسری جائے کہ وہ ایک لمحہ ضائع کیے بغیر عالمی معیار کی برآمد کے قابل اپلیکیشنز بنانا شروع کر دیں۔

پھر ایک بہت بڑا در اس وقت ایمزون کا کھلا ہے۔ جس میں ذرا سی کوشش سے نہ صرف ہزاروں نوجوان برسرِ روزگار ہو سکتے ہیں بلکہ ملک کے لیے کروڑوں ڈالر کا زر مبادلہ کما سکتے ہیں۔ اس میں مگر ایک قباحت ہے کہ وطن عزیز میں ابھی اس معیار کی اس قدر وافر اشیاء نہیں بنائی جاتیں مجبوراً ہمیں چینی اشیاء کی فروخت کرنا پڑتی جس کے لیے زرمبادلہ پہلے چین بھیجنا پڑتا ہے اور بعد میں ہماری کمائی شروع ہوتی ہے۔

نوجوانوں کی ایک فوج کو سینکڑوں ہنر سکھلا کر وسط ایشیاء اور دیگر ممالک میں کام کے لیے بھیجا جا سکتا ہے۔ اس وقت بھی پاکستان کی کل برآمدات کے نصف کے قریب زرمبادلہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے ہی آتا ہے۔ اگر ہم نوجوانوں کو تین چار ماہ کے ویلڈنگ یا تعمیرات کے شعبے کے دوسرے ہنر کے کورسز کروا کر ان کی سرٹیفیکیشن کر کے باہر بھیجیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کو مزید بڑھایا نہ جا سکے۔

گاڑیوں، ٹریکٹروں اور ان کے فاضل پرزہ جات سے بھارت سالانہ اسی ارب ڈالر کا زرمبادلہ حاصل کرتا ہے آبادی کے تناسب سے ہمیں سولہ ارب ڈالر کی برآمدات کرنا چاہئیں۔ مگر ہماری برآمدات اس مد میں آدھے ارب ڈالر سے بھی کم ہیں۔ کس قدر بڑا میدان ہے۔ فارغ بیٹھے دوستوں سے گزارش ہے کہ اس میدان میں ہنر سیکھیں۔ آئی ٹی سیکٹر کی طرح یہ بھی ایسا میدان ہے جس میں بہت کم سرمایہ کاری سے اپنا کام شروع کیا جا سکتا ہے۔

دنیا بھر میں فروزن فوڈ کا ڈھائی سو ارب ڈالر کا سالانہ کاروبار ہوتا ہے۔ دس ارب ڈالر کا خشک پھلوں اور لگ بھگ اتنا ہی خشک سبزیوں کا۔ پھر ٹن پیک فوڈ کا حجم بھی قریب اتنا ہی ہے۔ زرعی ملک ہونے کے ناطے، تین سو ارب ڈالر سالانہ کے اس کاروبار میں ہم ایک فیصد بھی حصہ لیں تو تین ارب ڈالر بنتے ہیں۔ مصر صرف متحدہ ارب امارات کو دو سو ٹن ماہانہ سرکے کا اچار فراہم کرتا ہے ہم کیوں نہیں کر سکتے؟

پھر ہینڈی کرافٹس ہیں، کھلونے ہیں، پنکھے، جوسرز، ہئیر ڈرائیرز اور اس طرح کی ان گنت گھریلو اشیاء جس کے لیے بہت زیادہ ہنر اور بہت مہنگی مشینری درکار نہیں۔ ادویات اور ان کا خام مال ہے، کیمیائی مرکبات ہیں، اور نہ جانے کیا کیا کچھ؟ جب لگن اور عزم کے ساتھ تلاش میں نکلیں گے تو بقول شاعر

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

دوستو اس بھنور میں پھنسی کشتی کا ایک ایک چپو تھام لو، آؤ مل کر زور لگاتے ہیں انشاء اللہ اسے نہ صرف اس بھنور سے نکال دیں گے بلکہ ہمیشہ کے لیے بہت محفوظ مقام پر لیجائیں گے۔

Check Also

Haye Kya Daur Tha Jo Beet Gaya

By Syed Mehdi Bukhari