Ab Bijli Hamari Sheh Rag Hai
اب بجلی ہماری شہہ رگ ہے
ماہ اگست میں دو سو یونٹس، چار سو یونٹس، ہزار یونٹس اور پانچ ہزار یونٹس استعمال کرنے والے مختلف صنعتی اداروں کا بل اوسطاً ستر روپے فی یونٹ کے حساب سے آیا ہے۔ جبکہ آئی ایم ایف کے کہنے پر جب سرکار نے بجلی کے نرخ بڑھائے تھے تو بتایا تھا کہ سات روپے فی یونٹ اضافہ ہوگا جو کہ محصولات سمیت تقریباً دس روپے فی یونٹ بنتا تھا۔ تب ہم فکرمند ہو رہے تھے کہ یک بارگی تئیس روپے فی یونٹ سے تینتیس روپے فی یونٹ پر جانا صنعت کے لیے کس قدر مشکل ہوگا۔
لیکن اصل اضافے نے تو صنعت کو ہلا کر ہی رکھ دیا ہے۔ پاکستان میں سب ہمسایہ ملکوں سے بجلی بہت زیادہ مہنگی ہے۔ چین میں صنعتی بجلی اوسطاً اعشاریہ چھ یووان۔ 0.6RMB ہے گویا قریب بیس روپے فی یونٹ ہے جبکہ زیادہ بجلی استعمال کرنے والی صنعت کو رات کے وقت مزید سستی دی جاتی ہے۔ پاکستان میں گرمیوں میں رات سات سے گیارہ اور سردیوں میں چھ سے دس نرخ پونے دو گنا ہوتے ہیں۔
مطلب آپ کو چھ بجے فیکٹری ہر صورت بند کرنا پڑتی ہے۔ متوقع اور غیر متوقع لوڈشیڈنگ کا عذاب اس پر سوا ہے۔ ان سارے اعداد و شمار کا آسان الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ فی کلوگرام لوہے کی ڈھلائی میں ہمارا اور چین کا صرف بجلی کا فرق پچپن روپے فی کلوگرام ہے۔ ان کے صنعتکاروں کو دستیاب باقی سہولیات اس کے علاوہ ہیں۔ ایسے ماحول میں مقامی صنعت کسی صورت بھی درآمدی مال کی قیمتوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔
بجلی کے بحران پر پہلے بھی کئی بار ہم بات کر چکے۔ اس سارے قضیے میں اصل نکتہ چوری اور بدعنوانی ہی ہے۔ پھر دور دراز علاقوں کو ماہانہ پانچ سو اور ایک ہزار روپے فکس بل جہاں دن رات اے سی چلتے ہیں۔ پہلے مرحلے پر بجلی کی پیداوار میں ملی بھگت سے جھوٹے اعداد و شمار مہیا کرکے چوری کی جاتی ہے۔ مطلب کم بنائی جاتی ہے اور زیادہ بتائی جاتی ہے۔
دوسرے نمبر پر جو کہ مقدار میں سب سے زیادہ ہے، وہ چوری جو تقسیم کار کمپنیوں کے ملازمین اور استعمال کنندہ کی ملی بھگت سے ہوتی ہے اور سب سے آخر میں وہ چوری صارفین اپنی چالاکی یا دھونس سے کرتے ہیں۔ محکمہ میں سامان کی خریداری اور صارفین کو اس کی دستیابی کے دوران ہوئی بدعنوانیاں ان کے علاوہ ہیں۔ ان سب چوریوں، کا بل وہی صارف ادا کرتے ہیں جو کسی قسم کی ایسی کاروائی میں ملوث نہیں۔
اس کے باوجود گردشی قرضہ قابو میں نہیں آ رہا۔ جس کی وجہ بدعنوان لوگوں کا اثر و رسوخ اور سرکار کی عدم دلچسپی ہے۔ لیکن یہ بات سب لوگ جان لیں بلکہ اچھی طرح ذہن نشیں کر لیں کہ اگر حال یہی رہا تو بچی کچی صنعت بھی دم توڑ جائے گی۔ ایسی صورت میں معاشی دیوالیہ پن کا عفریت اپنے پنجے گاڑھ دے گا جس کا حتمی انجام عالمی طاقتوں کی صوابدید پر ہوگا۔ جس کی کم سے کم قیمت ایٹمی اثاثہ جات اور خاکم بدہن زیادہ سے زیادہ ملکی سالمیت بھی ہو سکتی ہے۔
پرانی والی کو بھول جائیں اب نیا سبق یاد کر لیں۔ اب ہماری شہہ رگ بجلی ہے۔ خدرا سمجھ لیں ہم جب تک بجلی کے معاملات درست نہیں کرتے کچھ بھی بہتر ہونے والا نہیں۔ سب مل کر، بیٹھ کر طے کر لیں کہ تعمیرات میں، کمیونیکیشن میں، تیل میں، گیس میں، لائسنسوں میں، پرمٹوں میں جہاں سے جی چاہے جو بن پڑے کھائیں، مگر بجلی کو معاف کر دیں۔ پھر سے کہتا ہوں اب یہ ہماری شہہ رگ ہے خدا کے لیے اس کو چھوڑ دیں۔