Saturday, 27 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Huzaifa Sinan/
  4. Siasat Aur Ahsasiat

Siasat Aur Ahsasiat

سیاست اور احساسیت

ہمارے سیاستدان آخر کب سیاست اور احساسیت میں تمیز کرنا سیکھ پائیں گے نہ جانے کب ان کی عقل میں آئے گا کہ کچھ چیزیں سیاست سے ماورا ہوتی ہیں۔ شاید یہ لوگ کبھی نہ جان پائیں کہ کچھ معاملات میں سیاست زیب نہیں دیتی۔ ہمارے ہاں سیاست کا مقصد لوگوں میں مقبولیت اور اقتدار کے حصول کے سوا کچھ بھی نہیں اور سیاستدان اپنے ان مقاصد کے حصول کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ انہیں اس سے فرق نہیں پڑتا کہ ان کے اٹھائے جانے والے یہ اقدامات شرم و حیا اور اخلاقیات کے دائرے میں بھی ہیں یا ایسی سب حدود عبور کر چکے۔ انہیں تو محض اپنے مقاصد سے غرض ہوتا ہے۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے عموماً پاکستانی سیاست میں دو اصول اپنائے جاتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ کسی بھی طرح کسی کامیابی یا پراجیکٹ مکمل ہونے کا کریڈٹ خود لینا اور دوسرا مخالف جماعت پر تنقید کر کے انہیں نیچا دکھلانا۔ کچھ معاملات میں ان کی یہ سیاست قابل قبول ہے مگر چند انتہائی سنگین معاملات پر ہونے والی سیاسی پوائنٹ سکورنگ سمجھ سے بالاتر ہے۔

حال ہی میں ہونے والے گجرپورہ زیادتی کیس ہی کی مثال لے لیجئے۔ جس واقعہ نے ہر درد دل رکھنے والے انسان کو غم میں مبتلا کر دیا اور پوری قوم کا اس پر یہی مطالبہ سامنے آیا کہ اس کے ذمہ داران کو سزا دی جائے اور اس حوالے سے حکومت اور اپوزیشن مل کر کوئی منظم قانون سازی کریں۔ مگر اس دلخراش واقعہ پر بھی سیاسی جماعتوں نے اپنی سیاست چمکانے کا کام باخوبی سرانجام دیا۔ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کریڈٹ اور تنقید کے وہی دو اصول استعمال کیے۔

سب سے پہلے اپوزیشن کی جانب سے کہا گیا کہ یہ سلیکٹڈ نااہل نالائق حکومت ہے اور اسے بہت جلد مستعفی ہو جانا چاہیے۔ دوسری جانب حکومت نے کریڈٹ کا اصول استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ہم بہتر گھنٹوں میں واقعہ کے اصل ملزموں تک پہنچے جس پر ہم داد کے مستحق ہیں۔ اپوزیشن نے کریڈٹ کا اصول استعمال کرتے ہوئے کہا گیا کہ ڈی این اے ٹیسٹ کرنے کے لیے استعمال ہونے والی پنجاب فرانزک لیب نون لیگ کے دور میں بنی اس لیے اس کا کریڈٹ شہباز شریف اور نواز شریف کو جاتا ہے۔ اس کے ردعمل میں وزیر اطلاعات پنجاب نے تنقید کا اصول استعمال کرتے ہوئے کہا کہ اس لیب کی منظوری پرویز الٰہی کے دور میں ہوئی نہ کہ شہبازشریف کے دور میں ہوئی۔ اپوزیشن لیڈر شہبازشریف نے قومی اسمبلی اپنے خطاب کے دوران کہا کہ جس موٹر وے پر یہ واقعہ پیش آیا وہ نوازشریف نے بنوائی تھی۔ یہ بات اب سمجھ سے بالاتر ہے کہ اس میں انہوں نے کریڈٹ کا اصول استعمال کیا ہے یا تنقید کا؟ اور اگر اس حوالے سے کوئی منظم قانون سازی ہو گئی تو اس کا کریڈٹ یقیناً حکومت لے گی۔

یوں اس طرح کے سنگین معاملات میں بھی کریڈٹ لینے اور تنقید کرنے کی ایک لمبی داستان ہے۔ مگر اب لوگ اس طرح کے معاملات میں سیاسی بیان بازی سے تھک چکے ہیں۔ اب سیاستدانوں کو مل کر کچھ کرنا ہوگا اور نہیں تو کم ازکم اس بات کو تو سمجھنا ہوگا کہ کچھ معاملات میں سیاست زیب نہیں دیتی اور کچھ چیزیں سیاست سے ماورا ہوتی ہیں۔

Check Also

Mein Aap Ka Fan Hoon

By Rauf Klasra