Tareekh Ka Zinda Kirdar
تاریخ کا زندہ کردار

حضرت عمر بن خطابؓ اسلام کی وہ عظیم شخصیت ہیں جن کا ذکر آتے ہی عدل و انصاف، بہادری، دین کی غیرت اور امت مسلمہ کے فلاحی نظام کی بنیاد ذہن میں آتی ہے۔ آپ کا شمار خلفائے راشدین میں دوسرے نمبر پر ہوتا ہے۔ آپ کی خلافت کا زمانہ اسلامی تاریخ کا سنہرا باب ہے، جس میں اسلام کو وسعت ملی، نظام حکومت میں عدل قائم ہوا اور دنیا نے پہلی بار ایک باکردار، بے باک اور انسان دوست حکمران کا عملی نمونہ دیکھا۔
حضرت عمرؓ کا تعلق قریش کے ایک معزز خاندان سے تھا۔ آپ کی پیدائش عام الفیل کے تقریباً تیرہ سال بعد ہوئی۔ قبولِ اسلام سے قبل آپ قریش کے مضبوط اور جری سرداروں میں شمار ہوتے تھے، لیکن آپ کا دل حق کی تلاش میں بے چین تھا۔ جب آپ نے قرآن مجید کی سورۃ طٰہٰ کی تلاوت سنی تو دل بدل گیا۔ اس کے بعد نہ صرف اسلام قبول کیا بلکہ اسلام کی طاقت کا کھلے عام اعلان کیا۔ آپ کے اسلام لانے کے بعد مسلمانوں کو پہلی بار بیت اللہ میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا موقع ملا۔ آپ نے رسول اکرم ﷺ سے محبت، اخلاص اور اطاعت کا عملی نمونہ پیش کیا۔
آپ کی بہادری ایسی تھی کہ عرب کے بڑے بڑے سردار بھی آپ سے خائف رہتے۔ جنگ بدر، احد، خندق، خیبر اور دیگر غزوات میں آپ نے شجاعت کے جوہر دکھائے۔ ہر موقع پر آپ رسول اللہ ﷺ کے قریب رہے اور ان کے فیصلوں پر عمل کرنے میں سبقت لی۔ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد جب امت نازک دور سے گزر رہی تھی تو آپ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ساتھ مشاورت و معاونت میں اہم کردار ادا کیا۔ آپ کے فہم و فراست اور حکمت کے فیصلے دور اندیشی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
خلافتِ راشدہ کے دوسرے خلیفہ کے طور پر حضرت عمرؓ کا دور سب سے عظیم اور بااثر دورِ حکومت مانا جاتا ہے۔ آپ نے تقریباً دس سال تک امت مسلمہ پر حکمرانی کی۔ آپ کی خلافت میں اسلامی سلطنت نے عراق، شام، مصر، ایران اور دیگر علاقوں کو فتح کیا۔ بیت المقدس کی فتح بھی آپ ہی کے دور میں ہوئی۔ آپ نے ان فتوحات کو جبر سے نہیں بلکہ اعلیٰ اخلاق اور عادلانہ نظام سے ممکن بنایا۔ آپ کی قیادت میں اسلامی لشکرنے نہ صرف فتوحات حاصل کیں بلکہ مفتوحہ علاقوں میں عدل و انصاف، علم و حکمت اور فلاحی نظام کو رائج کیا۔
حضرت عمرؓ کا سب سے بڑا کارنامہ عدل و انصاف کا قیام ہے۔ آپ نے قاضیوں کا تقرر کیا، ان کو مکمل خودمختاری دی اور خود کو بھی قانون سے بالاتر نہ سمجھا۔ اکثر فرمایا کرتے: "اگر میرے عہد میں ایک کتا بھی بھوکا مر جائے تو عمر اس کا ذمہ دار ہے"۔ آپ نے بیت المال کا قیام کیا، دیوان کا نظام بنایا، مردم شماری کروائی، ڈاک کا نظام رائج کیا اور سپاہیانہ تنخواہوں کا تعین کیا۔ عوام کی فلاح کے لیے آپ راتوں کو گشت کیا کرتے اور یتیموں، بیواؤں اور مسکینوں کے گھروں میں راشن پہنچاتے۔
آپ کی ذات میں وہ تمام صفات جمع تھیں جو ایک آئیڈیل حکمران میں ہونی چاہئیں۔ آپ نہایت سادہ زندگی گزارتے، خود لباس پیوند زدہ پہنتے، خود کھانا پکاتے اور خود ہی اپنے کام انجام دیتے۔ دنیا کے سب سے بڑی سلطنت کے حکمران ہو کر بھی نہ کوئی محل بنایا، نہ خادموں کی فوج، نہ سونے چاندی کا ذخیرہ۔ آپ کا معمول تھا کہ خلیفہ ہونے کے باوجود بازاروں میں گشت کرتے، لوگوں کے احوال دریافت کرتے اور مظلوموں کو انصاف فراہم کرتے۔ یہی وجہ تھی کہ لوگ آپ سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور آپ کی دیانت پر کامل بھروسہ رکھتے تھے۔
حضرت عمرؓ کی شہادت بھی آپ کی زندگی کی طرح عظیم اور لازوال ہے۔ 26 ذوالحجہ 23 ہجری کو فجر کی نماز کے دوران ایک مجوسی غلام ابولؤلؤ فیروز نے آپ پر خنجر سے حملہ کیا۔ آپ شدید زخمی ہو گئے اور تین دن کے بعد 1 محرم الحرام کو شہادت کا جام نوش فرمایا۔ آپ نے اپنی شہادت سے قبل مجلس شوریٰ قائم کرکے خلافت کے انتخاب کا نظام وضع کیا اور اسلامی جمہوریت کی بنیاد رکھی۔ آپ کی شہادت پر پورا مدینہ اشکبار ہوا۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ "عمر کی موت سے علم کا دروازہ بند ہوگیا"۔ حضرت عثمانؓ نے فرمایا "اگر عمر کا انصاف جاری رہتا تو ہر بستی میں عدل کا بول بالا ہوتا"۔
حضرت عمرؓ کی زندگی کا ہر لمحہ مسلمانوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ ان کا طرزِ حکمرانی، ان کی عاجزی، ان کی خدا خوفی، ان کا عدل اور ان کی بہادری آج بھی دنیا کے لیے ایک نمونہ ہے۔ وہ حکمران تھے مگر غلاموں سے بھی نرمی سے پیش آتے تھے۔ وہ کمانڈر تھے مگر دشمن پر بھی رحم کرتے تھے۔ وہ قاضی تھے مگر خود کو بھی قانون کے تابع رکھتے تھے۔ حضرت عمرؓ کی زندگی ایک مکمل اسلامی ریاست کی عملی تصویر تھی۔
آج دنیا جس نظام انصاف کی تلاش میں ہے، وہ حضرت عمر کے عہد میں موجود تھا۔ آج مسلمان جن مسائل کا شکار ہیں، ان کا حل حضرت عمر کی حکمت، فہم، عدل اور ایمانداری میں پوشیدہ ہے۔ ان کی ذات بلاشبہ تاریخ اسلام کی وہ بلند چوٹی ہے جسے زمانہ کبھی بھلا نہیں سکتا۔ حضرت عمرؓ نہ صرف تاریخ اسلام بلکہ تاریخ انسانیت کے بھی سب سے عظیم حکمرانوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی ان کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

