Friday, 19 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Hussnain Nisar/
  4. PDM Ki Muhim

PDM Ki Muhim

پی ڈی ایم کی مہم

آج کل حکمران اتحاد پی ڈی ایم بڑے جوش و خروش سے اعلیٰ عدلیہ خاص کر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب عطا بندیال کے خلاف مہم چلا رہا ہے۔ اس میں مسلم لیگ ن کے رہنما پیش پیش ہیں۔ ویسے مجھے تو اس پر کبھی حیرت نہیں ہوئی کیونکہ لاہور میں رہتے ہوئے اپنے ستائیس سالہ صحافتی تجربے کی بنیاد پر اچھی طرح علم ہے کہ ن لیگی ہمیشہ ایسا ہی کرتے ہیں۔ ان کا دیرینہ طریقہ کار ہے کہ پہلے عدلیہ کو مینیج کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، اگر ناکام ہو جائیں تو پھر حملہ کر دیا۔ ان کے حملے بھی ہمیشہ ذاتی نوعیت کے ہوتے ہیں، انگریزی محاورے کے مطابق Below The Belt۔

اس بار مہم مزید شدید اور تلخی آمیز ہوچکی ہے، سب سے بڑی وجہ دو دن پہلے سابق وزیراعظم عمران خان کو سپریم کورٹ اور پھرہائی کورٹ سے ملنے والا ریلیف ہے۔ عام ن لیگی رہنما تو ایک طرف خود وزیراعظم نے بھی وفاقی کابینہ کے اجلاس میں عدلیہ پر سخت تنقید کی۔ پاکستان کی تاریخ میں شائد پہلی بار کسی کابینہ اجلاس کو براہ راست تمام چینلز پر نشر کیا گیا۔ وجہ یہی تھی کہ اس تنقید کو پورے ملک میں براہ راست پہنچایا جائے۔

وزیراعظم شہباز شریف کی تقریر، مریم نواز شریف کے ٹوئٹس، مریم اورنگ زیب کی پریس کانفرنس اور خواجہ آصف کی بازاری لب و لہجے میں ججوں کے خلاف کی گئی گفتگو دراصل پی ڈی ایم کی صفوں میں موجود شدید انتشار اور فرسٹریشن کی علامت ہے۔ پی ڈی ایم میں موجود ن لیگ اور جے یو آئی کا مورال لگتا ہے خاصا لو ہوگیا ہے، جسے بلند کرنے کی کوشش میں انہوں نے غیر ضروری جارحیت اپنا لی ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن بھی سپریم کورٹ اور چیف جسٹس پر حملہ آور ہوئے ہیں، وہ بھی نہایت عامیانہ انداز میں ایک گھٹیا ذاتی حملے کے ساتھ۔ مولانا ایک دینی سکالر ہونے کے دعوے دار ہیں، ان کے مداحین یہ بات کہتے تھکتے نہیں کہ مولانا پانچ لاکھ علماء کے نمائندہ ہیں، اگر ایسی بات ہے تو مولانا کو اس شائستگی، لحاظ اور وضع داری کا مظاہرہ بھی کرنا چاہیے جو دین ہمیں سکھاتا ہے۔

مولانا کو یہ توفیق تو ہوئی نہیں کہ ہائی کورٹ سے عمران خان کو ناجائز طور پر اٹھانے کی مذمت کر سکیں۔ ا سکے لئے جو اخلاقی جرات درکار ہے، لگتا ہے اس کا عزت مآب مولانا فضل الرحمٰن میں فقدان ہے۔ جب اس صریحاً ناانصافی اور ناجائز حرکت کو سپریم کورٹ نے غیر قانونی قرار دے دیا، تب مولانا شدید مضطرب ہوگئے۔ اپنی طرف سے تو وہ یہ سمجھ چکے تھے کہ عمران خان کی کہانی ختم ہوگئی، وہ اگلے کئی مہینوں تک جیل میں بند رہے گا اور باہر پی ڈی ایم حکومت اپنے اللے تللے جاری رکھے گی۔

عمران خان کی ضمانت نے مولانا کو اتنا بڑا دھچکا پہنچایا کہ وہ بوکھلا کر سپریم کورٹ کے باہر دھرنا دینے کا اعلان کر بیٹھے۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ ریڈ زون میں دھرنا کیسے دے سکتے ہیں؟ اگر آج انہوں نے دھرنا دے دیا تو پھر کل کو تحریک انصاف کو ریڈ زون میں دھرنا دینے سے کیسے روک سکیں گے۔ میرے نزدیک معاملہ بڑا صاف اور سیدھا ہے۔ عمران خان کی گرفتاری ایک الگ معاملہ ہے اور اس پر آنے والا ردعمل الگ۔ عمران خان کی گرفتاری کے بعد ان کی جماعت کی جانب سے دئیے جانے والے ردعمل میں زیادتی ہوئی۔

توڑ پھوڑ اور گھیراؤ جلاؤ والی کیفیت رہی جو کہ غیر مشروط مذمت کی مستحق ہے۔ جس جس نے یہ زیادتی کی، کورکمانڈر ہاؤس لاہور اور ریڈیو پاکستان پشاور جلایا، دیگر املاک کو آتش زدگی کا نشانہ بنایا، ان سب کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے۔ ایک بار جب ایسے لوگوں کو سزائیں ملیں گی تو آئندہ کوئی ایسا کرنے سے پہلے سو بار سوچے گا۔ یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ 2014 کے دھرنے کے دوران پی ٹی وی اسلام آباد میں گھسنے والے لوگوں کے خلاف سخت کارروائی ہوتی تو شائد نو مئی کو توڑ پھوڑ کے واقعات اس طرح نہ ہو سکتے۔ ہمیں غلط کو غلط ہی کہنا چاہیے۔

اس ردعمل کا مگر یہ قطعی مطلب نہیں کہ تحریک انصاف ایک دہشت گرد جماعت ہے یا یہ شدت پسندوں پر مشتمل ہے۔ عمران خان کو بھی دہشت گرد، مجرم، شدت پسند وغیرہ کہنے والے غلطی پر ہیں۔ عمران خان پاکستان کے اہم ترین سیاستدان اور سابق وزیراعظم ہیں۔ اس کے قوی امکانات ہیں کہ اگر ملک میں الیکشن ہوں، جیسا کہ اگلے تین ماہ بعد اسمبلی کی مدت پوری ہونے پر کرانے پڑیں گے، تو عمران خان الیکشن جیت کر پھر سے وزیراعظم بن جائیں۔

عمران خان نے 2018ء کے عام انتخابات میں ایک کروڑ چونسٹھ لاکھ ووٹ لئے تھے۔ آج مسلم لیگ ن کے حامی اخبارنویس، تجزیہ کار اور عوامی سروے کرنے والے متفق ہیں کہ عمران خان کی مقبولیت دوہزار اٹھارہ سے بہت زیادہ ہوچکی ہے۔ تمام سروے رپورٹوں میں پنجاب اور کے پی میں دو تہائی اکثریت سے کامیابی کی امید ظاہر کی گئی۔ ملک میں رجسٹرڈ ووٹر ویسے ہی بڑھ چکا ہے۔ اس لحاظ سے عمران خان کم وبیش ڈھائی پونے تین کروڑ کا ووٹ بینک رکھتا ہے۔ ایسے شخص کو دہشت گرد کہنا تو اپنے پورے جمہوری، سیاسی نظام پر سوالیہ نشان لگانے کے مترادف ہے۔ یہ عوامی شعور اور ان کی نمائندگی پر بھی شک کرنا ہے۔

عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے جس طرح اٹھایا گیا، وہ صریحاً غلط، ناجائز اور ظلم تھا۔ اس کی کوئی مثال پہلے نہیں ملتی کہ ایک سیاستدان عدالت حاضر ہوا ہو اور اسے وہاں سے اٹھا لیا جائے۔ جس طرح اسے اٹھایا گیا، اس اقدام نے غلط اور غیر قانونی قرار پانا ہی تھا۔ اسی روز بعض عمران مخالف تجربہ کار صحافیوں نے ٹی وی چینلز پر کہہ دیا تھا کہ سپریم کورٹ سے یہ اقدام ریورس ہو جائے گا۔ وہی ہوا۔ سپریم کورٹ کے ججوں کے پاس اور آپشن کیا تھی؟ ناجائز کام کو غلط اور غیر قانونی ہی کہنا تھا۔

ایک عجیب و غریب تنقید یہ کی جا رہی ہے کہ چیف جسٹس نے عمران خان کے لئے خیر مقدمی جملہ کیوں بولا؟ یہ نہایت کمزور اور بوگس استدلال ہے۔ نائس ٹو سی یو (آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی) ایک عام رسمی جملہ ہے، جسے روٹین میں ہم بول دیتے ہیں۔ کیا اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عمران خان کو دیکھنے والوں کا دل بھنگڑے ڈالنے لگا تھا؟ نہیں۔ ایسا نہیں ہوتا بھئی۔

ایک شخص سابق وزیراعظم، ملک کی اہم ترین جماعت کا سربراہ ہے، وہ کوئی دہشت گرد، قاتل یا ریپسٹ نہیں، کسی فوجداری کیس میں نہیں آیا۔ ایک دن پہلے اسے ہائی کورٹ سے بڑے ظالمانہ انداز میں گھسیٹ کر لے جایا گیا۔ ریلیف کے لئے وہ بطور سائل سپریم کورٹ آیا ہے۔ عمران خان کے خلاف سپریم کورٹ میں کیس زیر سماعت نہیں تھا، وہ بطور ملزم نہیں بطور سائل عدالت آیا تھا، ریلیف کے لئے۔ اگر فاضل جج نے ایک رسمی جملہ بول دیا تو اس میں کیا برائی ہے؟

پچھلے چند برسوں سے عدالتوں کی کارروائی بہت تفصیل سے میڈیا اور ویب سائٹس میں رپورٹ ہوتی ہے۔ اسے پڑھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ دوران سماعت سنجیدہ بحثوں کے ساتھ بہت سی گپ شپ بھی چلتی رہتی ہے۔ نعیم بخاری جیسے وکلا تو ججوں کے ساتھ ہلکا پھلکا مذاق بھی کر لیتے ہیں۔ کئی بار جج صاحبان کسی اہم کیس میں اہم رہنما کو روسٹرم پر بلا کر اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔

پچھلے سال جب قاسم سوری کی اسمبلی رولنگ والا معاملہ چل رہا تھا تو موجودہ چیف جسٹس کی عدالت میں بلاول بھٹو بھی پیش ہوئے، وہ بھی بطور سائل وہاں آئے تھے۔ چیف جسٹس نے بلاول بھٹو کو روسٹرم پر بلا کر نہ صرف خیر مقدم کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ آپ کی فیملی کی جمہوریت کے لئے بہت قربانیاں ہیں، ہمیں اس کا احترام ہے۔ اسی سماعت میں شہباز شریف سے بھی گفتگو کی گئی۔ کیا تب تحریک انصاف یہ اعتراض کرتی کہ چونکہ بلاول بھٹو کی فیملی کی قربانیوں کا ذکر کیا گیا ہے تو یہ جج کے متعصب ہونے کی دلیل ہے؟

اہم ترین امر جس کا پی ڈی ایم والے دانستہ ذکر نہیں کر رہے کہ سپریم کورٹ نے تو عمران خان کو اگلے روز اسلام آباد ہائی کورٹ بھیجنے کے لئے پابند کیا بلکہ انہیں اپنے گھر بنی گالہ بھی نہیں جانے دیا گیا۔ اگر ہائی کورٹ عمران خان کی ضمانت مسترد کر دیتی تو وہ فوری گرفتار ہو جاتے۔ خواجہ آصف، مولانا فضل الرحمٰن اور ان کے دیگر ساتھی چیف جسٹس پر ذاتی حملے اور فضول طنزیہ جملے کس رہے ہیں، تو کیا یہ ریلیف دے کر اسلام آباد ہائی کورٹ کے فاضل جج صاحبان بھی ان کی نظر میں مشکوک اور مجرم بن گئے؟ کیا ہر وہ فورم جہاں سے تحریک انصاف کو ریلیف ملے گا، وہ غلط ہوگا۔

یہی ہائی کورٹس ہیں جہاں سے نواز شریف کو ریلیف ملا اور وہ کسی ٹھوس یقین دہانی کے بغیر باہر جانے میں کامیاب ہوئے۔ لاہور ہائی کورٹ سے سابق دور میں ن لیگی رہنماؤں کو بار بار ریلیف ملا۔ حمزہ شہباز کی تو سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے اتوار کے دن ضمانت لی تھی اور وہ بھی بلینکٹ ضمانت تھی کہ نیب یا پولیس کسی بھی دوسرے کیس میں حمزہ کو نہیں پکڑے گی۔ کل ہائی کورٹ کا ریلیف ٹھیک تھا کیونکہ شریف خاندان کو فائدہ پہنچا، آج ہائی کورٹس غلط ہیں کیونکہ عمران خان کو ریلیف مل رہا ہے۔ "میٹھا میٹھا ہپ، کڑوا کڑوا تھو" غالباً اسے ہی کہتے ہیں۔ سیاسی منافقت اور دوغلا پن جیسے نسبتاً سخت الفاظ بھی اسی صورتحال میں صادق آتے ہیں۔

Check Also

Karakti Bijliyan

By Zafar Iqbal Wattoo