Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hussnain Nisar
  4. Muft Ke Teen Kirdar

Muft Ke Teen Kirdar

مفت کے تین کردار

کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ پاکستان میں تعلیم، ڈگری یا تجربے کی ضرورت صرف نوکری کے لیے ہوتی ہے۔ لیکن مشورہ دینے کے لیے ہر شہری کے پاس "پیدائشی اختیار" موجود ہے۔ ہمارے ملک میں ہر پاکستانی کے اندر ایک چھپا ہوا ڈاکٹر، ایک خود ساختہ وکیل اور ایک جذباتی سیاستدان موجود ہوتا ہے۔ یہ تینوں کردار اتنے مضبوطی سے ہمارے اندر گندھے ہوئے ہیں کہ بعض اوقات اصل ماہرین خود الجھن میں پڑ جاتے ہیں۔

کسی کو بخار ہو جائے تو ماہرِ امراض دل، ناک کے ڈاکٹر، دودھ والا اور حتیٰ کہ ریڑھی والے تک علاج تجویز کرنے آ جاتے ہیں۔ "دوا چھوڑو، بس پپیتا کھاؤ"، "یہ سب ٹھنڈے پانی کی وجہ سے ہوا ہے"، "بخار کیا ہے، بس تھوڑا نمک گرم پانی میں ڈال کے نہا لو"۔ آپ اسپتال جانے کی ضد کریں تو لوگ ایسے دیکھتے ہیں جیسے آپ نے کوئی کفر کا کام کر دیا ہو اور اگر آپ غلطی سے اینٹی بائیوٹک کھا لیں تو فوراً طبّی فتوے جاری ہو جاتے ہیں: "یہ سب دوائیاں جسم کو کھا جاتی ہیں، ہومیوپیتھک بہتر ہے، میرے چچا نے اسی سے کینسر کا علاج کیا تھا! "

اسی طرح، ہمارے ہاں ہر دوسرا بندہ وکالت میں پی ایچ ڈی لگتا ہے۔ کسی کا جھگڑا ہو، زمین کا مسئلہ ہو، ایف آئی آر درج کروانی ہو یا طلاق کا معاملہ ہو، لوگ قانون کی ایسی تشریح کرتے ہیں کہ آئین ساز اسمبلی بھی سر پکڑ لے۔ "بھائی، عدالت میں کیس ڈال دے، تین تاریخوں میں فیصلہ ہو جائے گا"، "ارے نکا طلاق ہوگئی، تین دفعہ طلاق بول دی نا ٹی وی کے سامنے؟ ہوگئی ختم! "۔ بعض لوگ تو اتنے دلیر ہوتے ہیں کہ خود ہی ملزم، گواہ، وکیل اور جج بن جاتے ہیں۔ انہیں آئینی دفعات، آرٹیکل اور سیکشنز کا اتنا "غیر سائنسی" علم ہوتا ہے کہ لگتا ہے گوگل انہی سے سیکھتا ہے۔

اور اب بات ہو جائے ہمارے اندر کے چھپے ہوئے سیاستدان کی۔ یہ وہ کردار ہے جو چائے کی پیالی سے لے کر کشمیری سرحد تک کے معاملات پر اپنی مکمل رائے رکھتا ہے۔ آپ کسی بھی پاکستانی سے پوچھ لیں کہ ملک کے مسائل کا حل کیا ہے؟ فوراً ایک ریڈی میڈ تقریر ملے گی جس میں مہنگائی، کرپشن، بھارت، امریکا اور عالمی سازشوں کا ذکر ہوگا۔ ہر شخص جانتا ہے کہ وزیراعظم کو کیا کرنا چاہیے، اپوزیشن کو کیا کہنا چاہیے اور عدلیہ کو کون سا فیصلہ دینا چاہیے۔ حالانکہ اپنی گلی کی نالی خود بند کروا نہیں سکتا، لیکن عالمی معیشت کے تجزیے خوب دیتا ہے۔

ایک اور خاص بات یہ ہے کہ یہ تینوں کردار بیک وقت ایک ہی انسان میں ہوتے ہیں۔ وہی بندہ جو آپ کو بخار کا دیسی علاج بتا رہا ہوتا ہے، تھوڑی دیر بعد زمین کے کاغذات دیکھ کر قانونی مشورہ دیتا ہے اور پھر چائے کے ساتھ موجودہ حکومت پر طوفانی تنقید کر رہا ہوتا ہے۔ اسے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ سامنے والا اس کی بات سے کتنا پریشان ہے، اسے بس اپنی "تھنک ٹینک" والی بات کہنی ہوتی ہے۔

یہ رویہ مزاحیہ تو ضرور ہے، لیکن اصل میں یہ ہمارے معاشرتی رویے کی عکاسی کرتا ہے۔ ہمیں دوسروں کے معاملات میں مداخلت کی عادت ہو چکی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مشورہ دینا ہمارا حق ہے، چاہے سامنے والے کو اس کی ضرورت ہو یا نہیں۔ یہ رویہ رشتوں میں فاصلہ پیدا کرتا ہے، لوگوں کی خود اعتمادی کو کم کرتا ہے اور بسا اوقات غلط معلومات کی بنیاد پر کسی کی زندگی کا نقصان کر دیتا ہے۔

اصل ماہرین کی بات سننے کی عادت ہمیں نہیں رہی۔ ہم نہ ڈاکٹر کو ڈاکٹر مانتے ہیں، نہ وکیل کو وکیل اور سیاست دان کو تو ویسے ہی برا بھلا کہنے کی عادت ہے۔ مگر خود جب ان تینوں کرداروں کی جگہ لیتے ہیں، تو بغیر ذمے داری، بغیر علم اور بغیر کسی پختہ دلیل کے رائے زنی کرتے ہیں۔ یہ رویہ ہمیں ایک ایسے معاشرے میں بدل رہا ہے جہاں شور تو بہت ہے، لیکن سننے والے کم ہیں۔

اب وقت ہے کہ ہم خود کو آئینہ دکھائیں، اپنے اندر کے جعلی ڈاکٹر، غیر قانونی وکیل اور جذباتی سیاستدان کو تھوڑا سا چھٹی پر بھیجیں اور سنجیدگی سے ماہرین کی بات پر دھیان دینا سیکھیں۔ کیونکہ مشورہ دینے سے زیادہ ضروری کبھی کبھی چپ رہنا بھی ہوتا ہے۔

Check Also

Dil e Nadan Tujhe Hua Kya Hai

By Shair Khan