Mehangai Aur Pakistanio Ki Himmat
مہنگائی اور پاکستانیوں کی ہمت
اشرافیہ کی سازشوں، اداروں کی ناکامیوں، حکمرانوں کی نا اہلی، سیاستدانوں کی خود غرضی، اساتذہ کی لا تعلقی، علماء کی شعوری غفلت، تاریخ کی سب سے زیادہ مہنگائی، پیٹرول کی ہوش ربا قیمتوں، پاکستانی روپے کی ریکارڈ بے قدری، سرکاری افسروں کی بے پروائی، پولیس کی ڈاکوؤں کے سامنے بے بسی، مگر شہریوں پر یلغار سے پورے رمضان میں ماحول میں جو سنگینی اور افراتفری تھی، نہیں لگتا تھا کہ شہریوں کی اکثریت ایسی انارکی میں عید کی خوشیاں منا سکے گی۔
لیکن آفریں ہے غربت کی لکیر سے نیچے 6 کروڑ سے زیادہ ہم وطنوں پر، غریب پاکستانیوں کی ہمت اور حوصلے کو سلام۔ متوسط طبقے کی منصوبہ بندی قابل رشک، عید محکوماں ہجوم مومنین نہیں تھی بلکہ یہ عید آزاداں شکوہ ملک و دیں تھی۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر، سب سے اہم تجارتی و اقتصادی مرکز کی غریب، ترقی سے محروم بستیوں کے پارکوں میں بچوں کے چہروں پر جو بشاشت تھی، آنکھوں میں جو چمک تھی، ان کے ماں باپ کے ماتھوں پر جو تسکین نقش تھی۔
وہ ہر قدم پر بشارت دے رہی تھی کہ یہ نادار، پائمال اکثریت نام نہاد اشرافیہ، طاقت کی بوالہوس مافیا، بندہ پروری کی روش سے نابلد خواجگان، مملکت کے بزعم خود ستونوں کی اجارہ داری کو سب کو شکست دے رہی ہے۔ غریب اپنے تہوار کو اپنے اسلامی، اپنے سماجی انداز سے دل کھول کر منا رہے ہیں اور ہر گام منتخب، غیر منتخب حکمرانوں کو للکار رہے ہیں کہ تم نے ہمیں مایوس کرنے، بے بس کرنے، خوشیاں چھیننے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن ہم اللہ کی رحمت سے ناامید نہیں ہوئے ہیں۔
تم نے ہمارے منہ سے لقمے چھیننے کی ہر لمحہ پالیسیاں بنائی ہیں مگر ہم نے ایک دوسرے کی اعانت سے امید اور خوشیاں حاصل کر لی ہیں۔ رزق کی تقسیم اس رازق اور پروردگار کے ہاتھ میں ہے۔ کسی صدر، وزیراعظم، وزیراعلیٰ، گورنر، آرمی چیف، چیف جسٹس، سینئر جونیئر بیورو کریٹ کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ ہماری قسمت خالق حقیقی نے لکھی ہے۔ تم اپنے مقدر واشنگٹن کے ہاتھوں میں سمجھتے ہو۔ تم اپنا رزق آئی ایم ایف کے اسٹاف لیول پروگرام میں خیال کرتے ہو۔ تم برسوں سے ہمارے کندھوں پر قرضوں کا بوجھ ڈالتے آ رہے ہو۔
مگر ہم ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ہر آفت کا مقابلہ کرنے کو تیار ہیں۔ یہ جو خاندان ایک موٹر سائیکل پر جا رہا ہے۔ موٹر سائیکل چلانے والا نئے کپڑوں کی خوشبو سے سرشار۔ اپنی بہنوں کے گھروں کی طرف رواں ہے۔ دو بیٹے اس کے آگے کالے چشمے لگائے دنیا کو فاتحانہ انداز میں دیکھ رہے ہیں۔ ایک بیٹی اپنے آنچل کو بار بار سر پر لا رہی ہے۔ پیچھے گھر کی مالکن، سال بھر محنت کرنے والی بیوی نئے عبایہ میں نئے چمکتے سینڈلوں میں، یہ منظر صرف ایک بار نہیں بار بار سامنے آ رہے ہیں۔
بسوں میں بھی یہ غریب گھرانے ایک دوسرے سے ملنے نکلے ہیں۔ مہنگائی کا شور ایک سال سے سن سن کر نہیں لگ رہا تھا کہ واہگے سے گوادر تک عید کی خوشیاں منانا آسان ہوگا۔ مگر قابل صد تحسین ہیں یہ غربت کے مارے ہوئے۔ حکمرانوں کے ستائے ہوئے۔ یہ اپنے وطن سے، اپنے مذہب سے عشق کرتے ہیں۔ اپنے پیدا کرنے والے قادر مطلق کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہوتے۔ اپنے رہبر کامل اللہ کے آخری نبی حضرت محمد ﷺ پر اپنی جاں نثار کرتے ہیں۔
وہ اپنی استقامت، اپنی اہلیت، اپنے اجتماعی شعور سے وقت کا سامنا کرتے ہیں۔ دیہی علاقے ہوں، ساحلی پٹیاں، قصبے، سب جگہ یہ مناظر آنکھوں کو طراوت بخش رہے ہیں۔ یہ صابر و شاکر لوگ خوشی کے دن خوش ہی رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بہت سے رفاہی اداروں نے بھی انہیں حوصلہ دیا ہے بہت سے نیک مالکوں نے بھی۔ ورنہ حکومت وقت کی پالیسیوں۔ بیانوں اور اقدامات نے تو زندگی کو ہر قدم ایک آزمائش بنا دیا ہے۔
حکمران وفاق میں ہوں۔ صوبے میں یا شہر میں۔ ان کے معمولات میں پروٹوکول میں۔ لاؤ لشکر میں تو کوئی فرق نہیں آیا۔ سائرن اسی طرح بج رہے ہیں۔ ان کے لیے ٹریفک اسی طرح رک رہا ہے۔ ان کے دفتروں۔ محلوں میں تو خوشحالی اسی طرح رقص کر رہی ہے۔ وہ آئین کی خلاف ورزی اسی طرح کر رہے ہیں۔ قانون کو کوئی اہمیت نہیں دے رہے ہیں۔ عدلیہ کے احکامات کا مذاق اسی شدت سے اڑاتے ہیں۔ غریب اکثریت کسی ایک تھانیدار کے سامنے سرتابی نہیں کر سکتی۔
اشرافیہ تو ہر روز عید مناتی ہے۔ خلق خدا کی عید تو ایک سال بعد آتی ہے۔ رمضان میں خواہشات عادات پر ضبط کرنے کے بعد آتی ہے۔ میں نے مسجد میں نماز عید میں بھی مزدوروں، کارکنوں، سرکاری دفاتر کے ادنیٰ ملازموں، شوروموں میں پہرہ دیتے، سیلز مینی کرتے ہم وطنوں کو اپنے بیٹوں، پوتوں کے ساتھ غور سے امام صاحب کا خطبۂ عید سنتے، پھر ایک دوسرے سے عید ملتے دیکھا۔ ایک والہانہ خوشی ان کی پیشانیوں پر دمک رہی تھی۔
اس اکثریت کی یہ مسرت۔ یہ تسکین یہ نوید دے رہی ہے کہ ہمارے پاکستانیوں کی یہ بے بہرہ اکثریت اپنے مسائل حل کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ یہ حالات کے مطابق اپنے گھر کا انتظام کر سکتے ہیں۔ خط غربت سے نیچے یہ کروڑوں اچھے مینیجر ہیں۔ جب ہمارے صدر، وزیراعظم، وفاقی وزراء، وزرائے اعلیٰ، گورنر اور دوسرے اعلیٰ سرکاری عہدیدار حالات کو قابو میں کرنے میں نااہل ثابت ہو رہے ہیں۔ اور یہ سب خود اپنی ناکامی کا اعتراف بھی کر رہے ہیں۔ اس وقت یہ کروڑوں محروم مظلوم کس طرح اپنے گھر چلا رہے ہیں؟
یہ عید کا دن ایک اہتمام اور بندوبست کے تحت گزار رہے ہیں۔ کوئی گلہ شکوہ نہیں کر رہے ہیں۔ اس ایک دن کی خوشی کے لیے وہ کئی مہینوں سے تیاری کر رہے تھے۔ عید کے دن اپنے معمولات ہمیشہ کی عیدوں کی طرح رکھے ہیں۔ باپ اپنی بیٹیوں کو عیدی دینے ان کے گھر پر گئے ہیں۔ نواسے نواسیاں ان سے عیدی مانگنے کے لیے بے تاب تھیں۔ بھائی بہنوں سے ملنے گئے ہیں۔ بعض بزرگوں نے یہ پروگرام بنایا کہ اپنے سارے بیٹوں بیٹیوں کو اپنے بچوں اور اہل خانہ سمیت ایک مقام پر بلا لیا۔ بعض صاحبان دل غریب بستیوں میں حقیقی خوشی حاصل کرنے پہنچے۔
اس آسمان چھوتی مہنگائی، سخت بد حال معیشت، اپنوں کی بے اعتنائی، اداروں کی باہمی لڑائی، عالمی سطح پر پاکستان کی تنہائی کے ہوتے ہوئے کتنے خاندانوں نے رمضان حرمین شریفین میں گزارا۔ کتنے اعتکاف میں بیٹھے۔ کتنی فلاحی تنظیموں نے لاکھوں میں راشن بانٹا، کپڑے، جوتے دلوائے، ایسی قوم اپنے مستقبل سے مایوس نہیں ہے۔ وہ مشکلات کا سامنا بڑے وقار سے کرسکتی ہے۔
آج کے جن بچوں بچیوں نے اس انتہائی خراب اقتصادی حالات میں عید نئے کپڑوں، نئے جوتوں اور نئے رنگین چشموں کیساتھ منائی ہے۔ آج سے دس سال بعد یعنی 2033ء میں یا پندرہ سال بعد یعنی 2038ء میں وہ پاکستان کو اسی منصوبہ بندی کے ساتھ چلا رہے ہونگے۔ جس مینجمنٹ سے ان کے غریب ماں باپ نے 2023ء میں عید پر ان کو خوشیوں سے محروم نہیں ہونے دیا۔ اکثریت فتح مند ہے۔ اشرافیہ شکست خوردہ۔