Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hussnain Nisar
  4. Mehangai, Asbab Aur Sadd e Baab

Mehangai, Asbab Aur Sadd e Baab

مہنگائی، اسباب اور سدِ باب

مہنگائی ایک ایسا مسئلہ ہے جو براہِ راست ہر فرد کو متاثر کرتا ہے۔ یہ ایک عالمی مسئلہ ضرور ہے، مگر پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں مہنگائی کا اثر عوام الناس پر کہیں زیادہ گہرا اور اذیت ناک ہے۔ روزمرہ کی بنیادی ضروریات، جیسے آٹا، چینی، گھی، دالیں، سبزیاں، پھل، دودھ، گوشت اور ادویات جیسی اشیاء عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوتی جا رہی ہیں۔ متوسط اور نچلے طبقے کے لیے زندگی گزارنا ایک چیلنج بن چکا ہے۔ ہر دن کے ساتھ قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے، مگر آمدن یا تو وہیں کی وہیں ہے یا گھٹ رہی ہے اور یہی وہ تضاد ہے جو عوام کو فاقہ کشی کی طرف لے جا رہا ہے۔

مہنگائی کے اسباب میں کئی پہلو کارفرما ہوتے ہیں۔ سب سے پہلا اور اہم سبب ملکی معیشت کی کمزور بنیادیں ہیں۔ جب ایک ملک درآمدات پر انحصار کرتا ہے اور برآمدات محدود ہوں، تو زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی آتی ہے، جس کا نتیجہ روپے کی قدر میں کمی اور مہنگائی کی صورت میں نکلتا ہے۔ پاکستان میں یہی صورتحال بارہا دیکھی گئی ہے۔ عالمی منڈی میں تیل یا دیگر اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہو یا ملکی کرنسی کی بے قدری، اس کا براہِ راست اثر پاکستانی بازاروں پر پڑتا ہے۔

دوسرا بڑا سبب حکومتی بدانتظامی ہے۔ پالیسیوں میں تسلسل کا فقدان، کرپشن، بیوروکریسی کی سستی اور حکمرانوں کی غیر سنجیدگی عوام کو مہنگائی کے دلدل میں دھکیلتی رہی ہے۔ حکومتی سبسڈی کا غلط استعمال، ذخیرہ اندوزی کے خلاف ناقص کارروائیاں اور ٹیکس نظام کی خامیاں بھی مہنگائی کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ جب حکومت اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر کنٹرول کھو دیتی ہے یا مصنوعی قلت پیدا ہونے دیتی ہے، تو منافع خور اور ذخیرہ اندوز عوام کا خون نچوڑنے میں دیر نہیں کرتے۔

تیسری وجہ عالمی سطح پر ہونے والے اثرات بھی ہیں، جیسے کورونا وبا کے بعد پیدا ہونے والی رسد و طلب کی غیر متوازن صورتحال، یوکرین جنگ اور دنیا بھر میں سپلائی چین میں رکاوٹیں۔ یہ تمام عناصر قیمتوں کو اوپر لے جانے میں مددگار بنے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان عالمی اثرات کو بہتر پالیسی سے روکا نہیں جا سکتا؟ جواب ہے: بالکل، اگر اندرونی نظام شفاف، مستحکم اور متحرک ہو۔

چوتھا سبب پاکستان کی آبادی میں بے تحاشا اضافہ بھی ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے روزگار، تعلیم، صحت اور خوراک کی فراہمی ایک بڑا چیلنج ہے۔ جب طلب زیادہ ہو اور رسد کم، تو لازمی طور پر مہنگائی بڑھے گی۔ اس پر قابو پانے کے لیے طویل المدتی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے، جو ہمارے ہاں ہمیشہ سے ناپید رہی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ مہنگائی کا سدباب کیسے ممکن ہے؟ پہلا حل ملکی معیشت کو مضبوط بنانا ہے اور یہ تب ہوگا جب ہم اپنی برآمدات میں اضافہ کریں، درآمدات پر انحصار کم کریں اور مقامی صنعت کو فروغ دیں۔ جب تک ہم باہر کی اشیاء پر انحصار کرتے رہیں گے، مہنگائی ہمارے دروازے پر دستک دیتی رہے گی۔ زرعی شعبے کو مستحکم کرنا، مقامی سطح پر پیداوار کو بڑھانا اور کسان کو سہولیات دینا بھی ضروری ہے۔

دوسرا حل شفاف اور مؤثر حکومتی پالیسی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ذخیرہ اندوزی کے خلاف سخت ایکشن لے، مارکیٹ کنٹرول اتھارٹیز کو فعال بنائے اور مصنوعی مہنگائی پیدا کرنے والے مافیا کو قانون کے کٹہرے میں لائے۔ ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے سے حکومت کے پاس آمدنی بڑھے گی، جو وہ عوامی فلاح و بہبود پر خرچ کر سکتی ہے۔

تیسرا اہم پہلو تعلیم و شعور ہے۔ جب عوام باخبر اور باشعور ہوں گے، تو وہ نہ صرف اپنے حقوق کا تحفظ کریں گے بلکہ غلط پالیسیوں کے خلاف آواز بھی بلند کریں گے۔ میڈیا، سوشل میڈیا اور تعلیمی ادارے اس شعور کو پیدا کرنے میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔

چوتھا حل نظام میں سادگی اور کفایت شعاری کا فروغ ہے۔ حکومتی اخراجات کم کرنا، غیر ضروری درآمدات پر پابندی لگانا اور قومی سطح پر بچت کا رجحان پیدا کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اگر حکمران طبقہ خود سادگی اپنائے، تو اس کا اثر نیچے کی سطح تک ضرور پہنچے گا۔

پانچواں اہم نکتہ انصاف پر مبنی معاشی تقسیم ہے۔ جب وسائل چند ہاتھوں میں سمٹ جاتے ہیں اور عوام کا ایک بڑا طبقہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہوتا ہے، تو معاشرے میں بےچینی اور مہنگائی کا جن بے قابو ہو جاتا ہے۔ ایک فلاحی ریاست کا خواب اسی وقت پورا ہو سکتا ہے جب ریاست کمزور طبقے کو تحفظ فراہم کرے۔

مہنگائی کا حل صرف ایک فقرے میں نہیں، بلکہ ایک جامع، مسلسل اور نیک نیتی پر مبنی جدوجہد میں ہے۔ جب تک حکمران طبقات، بیوروکریسی، سرمایہ دار، میڈیا اور عوام سب ایک پیج پر آ کر سنجیدگی سے اس مسئلے کا حل نہیں نکالیں گے، تب تک ریلیف صرف دعووں میں ہی محدود رہے گا۔ یہ وقت ہے کہ ہم صرف مسائل گنوانے کے بجائے ان کا عملی حل تلاش کریں، کیونکہ ایک روٹی، ایک کپڑا اور ایک مکان اب محض سیاسی نعرے نہیں، بلکہ انسان کا بنیادی حق ہیں۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan