Maa
ماں
جس کی پیشانی میں نور، جس کی آنکھوں میں ٹھنڈک، جس کی باتوں میں محبت، جس کے دل میں رحمت، جس کے ہاتھوں میں شفقت، جس کے پیروں میں جنت اور جس کی آغوش میں پوری دنیا کا سکون رکھ دیا گیا ہے وہ ماں ہی ہے۔
ماں اللہ تعالی کی طرف سے ہمارے لیئے ایک عظیم نعمت ہے۔ جس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ ماں نہ ہی کبھی احسان جتاتی ہے اور نہ ہی اپنی محبتوں کا صلہ مانگتی ہے بلکہ بے غرض ہو کر اپنی محبت اولاد پر نچھاور کرتی رہتی ہے۔
ماں شفقت، خلوص، بے لوث محبت اور قربانی کا دوسرا نام ہے۔ یہ دنیا کی وہ سب سے پیاری ہستی ہے جس کا خیال ذہن میں آتے ہی ایک لطیف سا احساس جاگتا ہے۔ اس کا سایہ چلچلاتی دھوپ میں گھنے درخت کی چھاؤں جیسا ہے، اس کی نرم و گرم گود بھی پریشانیوں کی سردی محسوس ہونے نہیں دیتی، خود حالات کے خاردار راستوں پر چلتی رہے مگر اولاد کو پھولوں کے بستر پر سلاتی ہے۔
ماں ایسا لفظ ہے جو دونوں ہونٹوں کے ملائے بغیر ادا نہیں کیا جا سکتا۔ ماں کے بغیر گھر ہمیشہ ویران نظر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ماں کو یہ درجہ عطا کیا کہ اس کے قدموں تلے جنت رکھ دی۔ ماں کی محبت وہ گہرا سمندر ہے، جس کی گہرائی کو آج تک کوئی ناپ نہ سکا اور نہ ہی ناپ سکے گا۔
"ماں" محبت کی وہ ابتداء ہے جو اپنی اولاد کو نو مہینے اپنے پیٹ میں پالتی ہے۔ ان نو مہینوں میں وہ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ دنیا میں آنے والے اس بچے کیلئے خود سراپا دعا بن جاتی ہے۔ وہ بچہ جو ابھی دنیا میں آیا بھی نہیں ہوتا اس کی خاطر وہ کس کس تکلیف سے نہیں گزرتی لیکن مجال ہے کہ اس اولاد کیلئے ایک زرا سی شکن بھی اس کے ماتھے پر آتی ہو جو آنے سے پہلے ہی اسے تکلیف میں مبتلا کر دیتی ہے۔
دنیا میں ماں کے سوا کوئی سچا اور مخلص رشتہ نہیں ہے۔ ماں ایک معتبر، شفیق اور بے لوث محبت کرنے والی عظیم ترین ہستی ہے، جس کی شفقت اور محبت کی ٹھنڈی ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھ کر ہم تمام دنیا کے دکھ درد بھول جاتے ہیں۔ ماں اپنی اولاد کو کبھی بھی دکھ نہیں پہنچنے دیتی، ماں کے شفیق ہاتھ اپنے بچوں کیلئے ہمیشہ خدا کے حضور ہی اٹھے رہتے ہیں۔
دنیا میں واحد ایک ماں کا ہی رشتہ ایسا ہے جس کو صرف معاف کرنا آتا ہے۔ انسان کوئی بھی غلطی کرے ماں سے معافی مانگے تو ماں اس کی سب غلطیاں بھلا کر اُسی وقت گلے سے لگا لیتی ہے۔ ماں کے دل میں رہنے کیلئے صرف اور صرف محبت ہی ہوتی ہے۔
جہاں لفظ ماں آیا سمجھ لیا کہ ادب کا مقام آیا میری نظر میں تخلیق کائنات کے وقت اللہ رب العزت نے اس پاک ہستی کو یہ سوچ کر بنایا کہ جب انسان کو دنیا میں کہیں سکون کی دولت نہ ملے گی تو اپنی ماں کی آغوش میں آکر اپنی سوچوں آہوں اور دکھوں کو نثار کرے گا اور ایسی راحت محسوس کرے گا جو اسے کہیں نہ ملی ہوگی ماں جیسی ہستی اس کائنات میں اس کائنات کا ایک جز ہے یہ ہستی اپنے اندر ایک محبت کا سمندر لیئے ہوئے ہے اگر اولاد کو ذرا سا دکھ میں دیکھا فورا محبت کا سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگا اور اس دکھ کو اپنی لہروں میں بہا کر محبت کا سکھ لے آئی اور پھر سے جینے کی کرن ابھار دی۔
اگر تاریخ میں جھانکا جائے تو چاہے ماں جتنا ہی اولاد سے خفا ہو مگر دل سے نہیں ہوتی مگر مجھے تو اس ہستی کے ڈانٹ میں بھی محبت کا اظہار نظر آتا رہا خوش نصیب ہیں وہ جن کی ماں زندہ ہے میرا ایمان ہے کہ کبھی ماں کسی کو دل سے بدعا نہیں دیتی اور اگر کسی نے اس ہستی کو دکھ دیا اور وہ ناراض ہوگئی تو سمجھ لو کہ دنیا سے بھی وہ شخص نامراد گیا اور آخرت میں بھی نامراد رہا۔
نبی کریم ﷺ کے زمانے میں ایک شخص قریب المرگ تھا مگر نہ تواُس کی زبان سے کلمہ جاری ہوتا تھا اور نہ ہی اُسے موت آتی تھی۔ وہ نہایت تکلیف میں تھا۔ صحابہؓ میں سے کچھ لوگ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ساری کیفیت بتائی۔ آپﷺ نے پوچھا کیا اس شخص کی والدہ زندہ ہے؟ بتایا گیا زندہ ہے مگر اس سے ناراض ہے۔ تب آپ نے فرمایا اس کی والدہ سے کہا جائے کہ وہ اسے معاف کردے۔ جب والدہ نے معاف کرنے سے انکار کیا تو نبی کریم ﷺ نے صحابہؓ کوحکم دیا کہ وہ لکڑیاں اکٹھی کریں تاکہ اُس شخص کو جلا دیا جائے۔ جب اُس کی ماں نے یہ حالت دیکھی توفوراً معاف کردیا۔ جب ماں نے اُسے معاف کیا تو پھر اس شخص کی زبان سے کلمہ بھی جاری ہوگیا۔
حضرت موسیٰؑ اپنی ماں کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ سے ہمکلام ہونے جا رہے تھے کہ راستے میں ٹھوکر لگنے سے گرنے ہی لگے تھے کہ غیب سے آواز آئی "اے موسیٰ! سنبھل کر چل اب تیرے پیچھے دعا کرنے والی ماں نہیں ہے۔۔
ہماری نئی نسل میں والدین کیلئے عزت و احترام کا رجحان کم ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اکثر لوگ ماں باپ کے احسان کو بھول کر ان کی محنت اور محبت کو فراموش کردیتے ہیں۔ بعض لوگ اپنے والدین کے اخراجات خوشی سے اُٹھاتے ہیں لیکن ان کیلئے وقت نہیں نکال پاتے۔ ایسے لوگوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ ماں باپ کو پیسوں یا دوسری چیزوں سے زیادہ اُولاد کے وقت، محبت اور خدمت کی ضرورت ہوتی ہے۔
میری ماں اس دنیا سے رخصت ہو چکی ہے تو دنیا میں ماں کے بغیر ایسا لگتا ہے جیسے میں دنیا میں اکیلا ہوں۔۔ مجھے اپنی ماں کی قربانیوں پر فخر ہے جن کا میں کبھی بھی صلہ نہیں اتار سکتا۔ میری تمام لوگوں سے یہ ہی درخواست ہے اگر ان کی والدہ حیات ہیں تو اپنی جنت کما لیجئے۔
آخر میں میں یہی کہوں گا اپنی اپنی ماؤں کی قدر کریں جن کی بدولت آج دنیا میں آپ کا وجود ہے۔ آپ کی کوئی حیثیت ہے۔ آپ کی کوئی عزت ہے ماں اللہ تعالیٰ کا جنتی میوا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں عنایت فرمایا ہے۔ جب بھی کبھی انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اس کے منہ سے ماں نکلتا ہے۔ ماں ہی کی بدولت ہمیں سب کچھ ملا۔ دونوں جہاں ماں کی وجہ سے قائم ہیں۔ ماں سے دونوں جہاں کا وجود ہے اگر ماں نہیں تو زندگی کا ہر کام ادھورہ رہ جاتا ہے۔۔