Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hussnain Nisar
  4. Maa Kabhi Bete Ka Ghar Kharab Nahi Karti

Maa Kabhi Bete Ka Ghar Kharab Nahi Karti

ماں کبھی بیٹے کا گھر خراب نہیں کرتی

ماں نے بیٹے کو بچپن سے اپنی آنکھوں کے سامنے پروان چڑھتے دیکھا ہوتا ہے۔ اس کے پہلے لفظ سے لے کر اس کے پہلے قدم تک، ہر لمحہ ماں کے دل میں ایک دعا کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔ بیٹے کے دکھ میں وہ خود دکھی ہوتی ہے، اس کی خوشی میں سب سے زیادہ خوش۔ اس نے اپنے آرام، اپنی نیند، اپنی خواہشیں سب بیٹے پر قربان کی ہوتی ہیں۔ جب بیٹا ضدی ہوتا ہے، غصے میں تیز ہوتا ہے، تو ماں ہی اسے تھامتی ہے، سنبھالتی ہے۔ اگر بیٹا کسی مجبوری یا معذوری میں مبتلا ہو، تو ماں کے لیے وہ تب بھی شہزادہ ہی رہتا ہے۔ وہ اس کے ہر دکھ کو اپنے دل میں سمیٹ لیتی ہے۔ مگر افسوس، جب شادی کے بعد بیٹے کی زندگی میں کوئی معمولی تلخ کلامی یا غلط فہمی آ جائے، تو بعض بیویاں اسی محبت کو غلط سمجھ بیٹھتی ہیں۔ وہ یہ بھول جاتی ہیں کہ جس ماں نے ساری زندگی اپنے بیٹے کو محبت اور قربانی سے پالا ہے، وہ کبھی نہیں چاہ سکتی کہ اس کے بیٹے کا گھر اجڑ جائے۔

ماں، بیٹے اور بہو کے درمیان رشتہ ہمیشہ ایک نازک توازن کا تقاضا کرتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ایک سمجھدار بیٹا ہی اس رشتے کو مضبوط بنیادوں پر قائم رکھ سکتا ہے۔ اکثر گھروں میں جب معمولی باتوں پر اختلافات جنم لیتے ہیں تو الزام ماں پر آتا ہے، حالانکہ ایک سچی ماں کبھی بھی اپنے بیٹے کی غلط پرورش نہیں کرتی، نہ ہی وہ چاہتی ہے کہ اس کے بیٹے کا گھر بگڑے۔ ماں کا دل اولاد کے لیے وہ آئینہ ہے جس میں صرف خیرخواہی جھلکتی ہے۔ وہ چاہے لاکھ سخت لہجے میں بات کرے، مگر اس کے دل کی گہرائی میں ہمیشہ بیٹے کے لیے دعائیں اور بھلائی چھپی ہوتی ہے۔

ماں کی پرورش کبھی بھی بیٹے کو بغاوت یا نفرت نہیں سکھاتی۔ وہ اسے احترام، صبر اور ایثار کا سبق دیتی ہے۔ مگر جب بیٹا شادی کے بعد ایک نیا رشتہ اختیار کرتا ہے، تو زندگی کے اس نئے مرحلے میں توازن قائم رکھنا اسی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ کیونکہ ماں اپنی جگہ ایک محبت بھرا درخت ہے اور بیوی زندگی کا ہمسفر۔ دونوں اپنی اپنی جگہ محترم ہیں۔ ماں کبھی یہ نہیں چاہتی کہ اس کا بیٹا یا اس کا گھر تباہ ہو۔ وہ تو ہمیشہ یہ دعا کرتی ہے کہ اس کے بیٹے کے گھر میں سکون ہو، محبت ہو، عزت ہو۔ لیکن بعض اوقات بیٹے کی کم فہمی یا بہو کی غلط فہمیاں اس محبت بھرے ماحول کو بگاڑ دیتی ہیں۔

کچھ گھروں میں دیکھا گیا ہے کہ بیویاں خود کو ساس کے مقابلے میں لا کر دیکھتی ہیں اور چھوٹی چھوٹی باتوں کو انا کا مسئلہ بنا لیتی ہیں۔ وہ یہ نہیں سمجھتیں کہ ماں نے اپنی ساری زندگی بیٹے کے لیے قربانیاں دی ہیں۔ وہ اس کے دکھ میں روئی ہے، اس کے درد میں جاگی ہے، اس کی کامیابی پر خوش ہوئی ہے۔ ایک بہو اگر یہ سوچ لے کہ وہ بھی اسی ماں کی اولاد ہے، تو بہت سے جھگڑے ختم ہو سکتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ کچھ بہوئیں جان بوجھ کر ماں کے خلاف بیٹے کے دل میں باتیں ڈالتی ہیں اور بیٹا اگر سمجھدار نہ ہو تو وہ ان باتوں میں آ کر اس محبت کے رشتے کو کمزور کر دیتا ہے۔

یہاں اصل دار و مدار بیٹے پر ہے۔ بیٹا اگر عقل مند ہو، تو وہ جانتا ہے کہ اس نے گھر کو کیسے جوڑ کر رکھنا ہے۔ ماں کو عزت دینا بھی اس کا فرض ہے اور بیوی کو مقام دینا بھی۔ لیکن اگر وہ خود کنفیوژن میں رہے، کبھی ماں کا جھکاؤ لے اور کبھی بیوی کا، تو پھر گھر کا سکون ختم ہو جاتا ہے۔ ماں چاہے جتنی بھی سخت بات کرے، وہ اپنے بیٹے کے خلاف نہیں ہوتی۔ وہ دراصل تجربے کی روشنی میں بات کرتی ہے، وہ جانتی ہے کہ دنیا کس طرح بدلتی ہے، لوگ کس طرح بگڑتے ہیں اور رشتے کس طرح بکھر جاتے ہیں۔ اس کی باتوں میں وہ محبت چھپی ہوتی ہے جو شاید بیٹا سمجھ ہی نہیں پاتا۔

ماں کے پاس یہ فہم ہوتی ہے کہ بیٹے کو کب، کہاں اور کیسے سمجھانا ہے۔ وہ محفل میں بیٹے کی عزت کا خیال رکھتی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ اگر وہ سب کے سامنے سمجھائے گی تو بیٹا اپنی انا میں کچھ الٹا ردعمل دے سکتا ہے، اس لیے وہ خاموش رہتی ہے اور اکیلے میں بات کرتی ہے۔ ایک سچی ماں کبھی بھی نہیں چاہتی کہ اس کے بیٹے کا رشتہ کمزور ہو۔ وہ اپنے بیٹے کی خوشی میں خوش ہوتی ہے۔ مگر کچھ بہوئیں اس خاموشی کو غلط مطلب پہناتی ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ ساس خاموش ہے تو شاید وہ کسی چال میں ہے، یا اس نے کوئی سازش کی ہے۔ حالانکہ ماں کی خاموشی بھی محبت کی ایک زبان ہے، جو صرف سمجھدار لوگ سمجھ سکتے ہیں۔

بیٹے کا کردار اس سارے معاملے میں سب سے اہم ہے۔ اگر بیٹا اپنی ماں کی نرمی کو کمزوری نہ سمجھے اور بیوی کی باتوں کو سننے کے ساتھ سمجھنے کی صلاحیت بھی رکھے، تو گھر کبھی بگڑتا نہیں۔ بیٹا اگر یہ سوچ لے کہ مجھے دونوں رشتوں کو ساتھ لے کر چلنا ہے، تو وہ دنیا کا سب سے مضبوط آدمی بن جاتا ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ماں کا احترام کم نہیں کیا جا سکتا اور بیوی کا مقام بھی اہم ہے۔ جو بیٹا انصاف سے کام لیتا ہے، وہ نہ صرف اپنے گھر کو جنت بناتا ہے بلکہ اپنی اولاد کے لیے بھی ایک روشن مثال چھوڑ جاتا ہے۔

آج کے زمانے میں یہ المیہ بڑھتا جا رہا ہے کہ بیٹے اپنی ماں کو غلط سمجھنے لگے ہیں۔ جب بیوی کسی بات پر شکایت کرے تو فوراً ماں کو قصوروار ٹھہرا دیا جاتا ہے۔ یہ سوچ بدلنے کی ضرورت ہے۔ ماں کا کردار صرف ایک رشتے کا نہیں بلکہ پورے خاندان کی بنیاد کا ہوتا ہے۔ وہ نسلوں کو جوڑنے والی ہستی ہے۔ اگر وہ کسی بات پر تنقید کرتی ہے تو وہ کسی نفرت سے نہیں بلکہ تجربے سے کرتی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ اس کا بیٹا غلط راستے پر نہ جائے۔ وہ کبھی بھی اپنے بیٹے کے گھر میں لڑائیاں نہیں دلواتی۔ ہاں، کچھ جگہوں پر ایسی مائیں ہوتی ہیں جو غلط کرتی ہیں، لیکن ایسی مثالیں نایاب ہیں۔ زیادہ تر مائیں اپنے بیٹے کے لیے وہی چاہتی ہیں جو وہ اپنے لیے چاہتی تھیں، عزت، محبت اور سکون۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ کچھ گھروں میں بہوئیں دانستہ طور پر ماحول خراب کرتی ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ بیٹا ماں سے دور ہو جائے، تاکہ ساری توجہ صرف ان پر ہو۔ مگر وہ یہ نہیں سمجھتیں کہ جو بیٹا اپنی ماں کو بھلا دیتا ہے، وہ کل کو کسی اور کا بھی نہیں رہتا۔ کیونکہ جو رشتہ ماں سے ٹوٹتا ہے، وہ انسان کی قسمت سے برکت چھین لیتا ہے۔ ماں کا دل تو دعا کے لیے اٹھتا ہے اور وہی دعا انسان کی زندگی کا سب سے بڑا سہارا ہوتی ہے۔

آخر میں بات پھر وہیں آتی ہے کہ ماں کا دل دنیا کا سب سے پاک اور سب سے نرم دل ہے۔ وہ اپنے بیٹے کو غلط راستے پر نہیں دیکھ سکتی۔ وہ کبھی بھی اس کے گھر میں تفرقہ نہیں ڈالتی۔ اگر کبھی کوئی غلط فہمی پیدا ہو بھی جائے تو ایک سمجھدار بیٹا اپنی گفتگو، اپنے رویے اور اپنی عقل سے اس کو ختم کر سکتا ہے۔ ماں اور بیوی دونوں زندگی کے دو پہلو ہیں۔ اگر بیٹا انصاف، محبت اور عقل کے ساتھ ان دونوں کے درمیان توازن قائم رکھے تو اس کا گھر ایک جنت بن سکتا ہے۔ لیکن اگر وہ کسی ایک طرف جھک جائے، تو یہی جنت آہستہ آہستہ جہنم بن جاتی ہے۔

اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ بیٹے اپنی ماں کی بات کو صرف "تنقید" کے طور پر نہ سنیں بلکہ "تجربہ" سمجھ کر سنیں۔ کیونکہ ماں کا ایک جملہ بھی زندگی کا وہ سبق ہوتا ہے جو کوئی استاد نہیں دے سکتا اور بیوی کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ اس کی ساس کسی دشمنی کے جذبے سے نہیں بلکہ محبت اور ذمہ داری کے احساس سے بات کرتی ہے۔ اگر دونوں عورتیں ایک دوسرے کو سمجھ جائیں، تو بیٹا سب سے زیادہ خوش نصیب انسان بن سکتا ہے۔

Check Also

Dil e Nadan Tujhe Hua Kya Hai

By Shair Khan