Khushamad, Lafzon Ka Fareb
خوشامند، لفظوں کا فریب

انسان کی شخصیت اور اس کا اخلاق اس بات سے پہچانا جاتا ہے کہ وہ دوسروں کے ساتھ کس طرح پیش آتا ہے۔ خاص طور پر مرد اور عورت کے تعلقات میں اسلام نے واضح حدود اور آداب مقرر کیے ہیں تاکہ عزت، پاکیزگی اور اعتماد کا ماحول قائم رہے۔ لیکن جب کوئی غیر محرم مرد خوشامد اور بناوٹی تعریف کو عورت کو اپنی طرف مائل کرنے یا ترپانے کے ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرتا ہے تو یہ نہ صرف اخلاقی پستی ہے بلکہ ایک طرح کی خطرناک چالاکی بھی ہے۔ یہ رویہ عورت کے اعتماد، اس کی عزت نفس اور معاشرتی امن کے لیے زہرِ قاتل ہے۔
خوشامد اور تعریف، اگر خلوص اور سچائی پر مبنی ہو، تو یہ تعلقات کو مضبوط کرنے اور دلوں کو قریب لانے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ مگر جب یہی چیز کسی کی نیت خراب کرنے، جذبات سے کھیلنے یا اپنی خواہشات پوری کرنے کے لیے استعمال کی جائے تو یہ دھوکہ، فریب اور اخلاقی گراوٹ ہے۔ کچھ مرد، خاص طور پر غیر محرم عورتوں کے ساتھ، خوشامدی الفاظ، مصنوعی تعریف یا ہمدردی کے لبادے میں اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ جان بوجھ کر عورت کی کمزوریوں، جذبات یا تنہائی کو سمجھ کر ایسے جملے بولتے ہیں جو بظاہر عزت افزائی لگتے ہیں مگر اصل میں ایک جال ہوتے ہیں۔
یہ رویہ اس لیے خطرناک ہے کہ خوشامد ایک نفسیاتی ہتھیار ہے۔ یہ سننے والے کو لاشعوری طور پر متاثر کرتا ہے، اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ خاص ہے، قیمتی ہے اور دوسروں سے منفرد ہے۔ عورت کے لیے تعریف اور عزت کے الفاظ ہمیشہ خوشگوار ہوتے ہیں، لیکن اگر ان کا مقصد صرف اس کے دل و دماغ پر قابو پانا ہو تو یہ استحصال ہے۔ اس طرح کے مرد عام طور پر ایسے الفاظ اور جملے چنتے ہیں جو عورت کے دل میں اپنا اثر ڈالیں، جیسے اس کی خوبصورتی، ذہانت یا اندازِ گفتگو کی بار بار تعریف کرنا۔ یہ تعریفیں آہستہ آہستہ ایک ایسا ماحول پیدا کرتی ہیں جہاں عورت غیر ارادی طور پر اس شخص کے قریب محسوس کرنے لگتی ہے اور یہی اس ہتھکنڈے کا مقصد ہوتا ہے۔
اسلام میں غیر محرم مرد اور عورت کے درمیان تعلقات کے بارے میں سخت ہدایات اسی لیے دی گئی ہیں تاکہ اس قسم کی چالاکیوں سے بچا جا سکے۔ خوشامد اور مصنوعی تعریف، جب نیت خراب ہو، تو یہ فتنہ پیدا کرنے والی چیز ہے۔ نبی کریم ﷺ نے بھی فرمایا کہ کسی کی حد سے زیادہ تعریف نہ کرو کیونکہ یہ تعریف کرنے والے اور سننے والے دونوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ غیر محرم عورت کو اس طرح متاثر کرنے کی کوشش دراصل اس کی عزت اور عفت پر حملہ ہے، چاہے یہ عمل بظاہر الفاظ کی حد تک ہی کیوں نہ ہو۔
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں بعض لوگ خوشامد کو ایک فن سمجھتے ہیں اور اسے اپنی ذاتی دلچسپی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ عورت کے دل تک رسائی کے لیے سب سے آسان راستہ اس کی تعریف اور عزت افزائی ہے، چاہے یہ سب جھوٹ اور بناوٹ پر مبنی ہو۔ اس سے نہ صرف عورت کے جذبات مجروح ہوتے ہیں بلکہ اس کی زندگی میں بھی کئی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ شادی شدہ عورت کے لیے یہ رویہ اس کے گھریلو سکون کو برباد کر سکتا ہے اور غیر شادی شدہ عورت کے لیے یہ بدگمانی اور غلط فہمیوں کا سبب بن سکتا ہے۔
یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ خوشامد اور تعریف میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ تعریف سچائی اور خلوص پر مبنی ہوتی ہے جبکہ خوشامد اکثر مفاد، لالچ یا خواہشات سے جڑی ہوتی ہے۔ جو مرد غیر محرم عورت کو خوشامد کے ذریعے اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتا ہے، وہ دراصل اس کے اعتماد سے کھیل رہا ہوتا ہے۔ یہ عمل اخلاق، شرافت اور انسانیت کے خلاف ہے۔ ایسے مرد اکثر ایک سے زیادہ عورتوں کے ساتھ یہی کھیل کھیلتے ہیں اور ان کے لیے یہ صرف وقتی تفریح یا ذاتی تسکین کا ذریعہ ہوتا ہے۔
عورتوں کو بھی چاہیے کہ وہ خوشامد اور تعریف میں فرق پہچانیں۔ اگر کوئی غیر محرم بار بار اور غیر ضروری طور پر آپ کی تعریف کرے، آپ کی باتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرے یا آپ کے ہر عمل کو مثالی بنا کر بیان کرے تو یہ ممکن ہے کہ اس کے پیچھے کوئی اور نیت ہو۔ ایسی صورت میں محتاط رہنا اور اپنی حدود کا خیال رکھنا لازمی ہے۔ مرد کا اصل احترام اس وقت ظاہر ہوتا ہے جب وہ عورت سے نرمی اور شائستگی سے بات کرے مگر حدود اور آداب کے دائرے میں رہ کر۔
آخر میں، یہ سمجھنا ضروری ہے کہ خوشامد، اگرچہ بظاہر میٹھی لگتی ہے، لیکن غلط نیت کے ساتھ یہ زہر ہے۔ یہ عورت کی زندگی میں فتنے، بدگمانی اور بربادی کے دروازے کھول سکتی ہے۔ غیر محرم مرد کے لیے یہ عمل گناہ ہے اور اس کا انجام نہ دنیا میں اچھا ہوتا ہے نہ آخرت میں۔ ہمیں اپنے معاشرے میں یہ شعور پیدا کرنا ہوگا کہ عزت، تعریف اور محبت کے رشتے صرف خلوص اور سچائی پر قائم رہ سکتے ہیں، خوشامد اور دھوکے پر نہیں۔ عورت کو عزت دینا نیک عمل ہے، مگر اسے ترپانے یا بہکانے کے لیے استعمال کرنا بدترین کردار کی علامت ہے اور یہ تباہی کی وہ راہ ہے جس سے بچنا ہی عزت اور سکون کا واحد ذریعہ ہے۔

