Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hussnain Nisar
  4. Iqbal Shayar Bhi Ashiq e Rasool Bhi

Iqbal Shayar Bhi Ashiq e Rasool Bhi

اقبال شاعر بھی عاشقِ رسولﷺ بھی

علامہ محمد اقبال برصغیر کی وہ عظیم ہستی ہیں جنہوں نے نہ صرف شاعری کے ذریعے قوم کو جگایا بلکہ اپنے فکر و فلسفے سے مسلمانوں کے اندر خودی، ایمان اور عشقِ رسول ﷺ کی وہ شمع روشن کی جو آج بھی رہنمائی کا چراغ ہے۔ اقبال محض شاعر نہیں تھے بلکہ ایک مصلح، فلسفی، عاشقِ رسول ﷺ اور قوم کے سچے رہبر تھے۔ ان کی شاعری میں صرف حسنِ بیان یا لفظوں کا جادو نہیں بلکہ ایک زندہ عقیدہ، ایک روحانی درد اور ایک مقصدی پیغام پوشیدہ ہے اور وہ مقصد تھا اُمتِ مسلمہ کی بیداری اور غلامی کی زنجیروں کو توڑنا۔

اقبال کا دل عشقِ رسول ﷺ سے لبریز تھا۔ ان کی شاعری کا مرکزی محور ہی نبی کریم ﷺ کی ذاتِ اقدس تھی۔ وہ بارہا اپنی نظموں میں اعتراف کرتے ہیں کہ ان کی ساری روحانی روشنی، ان کی فکر کی گہرائی اور ان کی زندگی کا نصب العین سب کچھ حضور ﷺ کی محبت سے حاصل ہوا۔ اقبال نے اپنی شاعری میں کئی مقامات پر عشقِ رسول ﷺ کو ایمان کی اساس قرار دیا۔ ان کے نزدیک اگر دل میں عشقِ رسول ﷺ نہیں تو ایمان بھی نامکمل ہے۔ ان کی مشہور دعا "لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری" ہو یا "کی محمدﷺ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں "، ہر لفظ اس محبت کا عکاس ہے جو اقبال کے دل میں حضور ﷺ کے لیے موجزن تھی۔

اقبال کے نزدیک عشقِ رسول ﷺ محض جذباتی وابستگی نہیں تھی بلکہ یہ ایک عملی فلسفہ تھا۔ ان کا ماننا تھا کہ جو شخص نبی ﷺ کے اخلاق، طرزِ زندگی اور تعلیمات کو اپناتا ہے، وہی حقیقی مومن ہے۔ اقبال نے مسلمانوں کو یہی پیغام دیا کہ اگر تمہیں عزت و وقار چاہیے، اگر تمہیں عروج چاہیے، تو تمہیں اپنے نبی ﷺ کی سیرت کو اپنانا ہوگا۔

یہ ایمان کی حرارت دراصل عشقِ رسول ﷺ ہی کی ایک شکل ہے۔ اقبال کی زندگی کے ہر پہلو میں عشقِ رسول ﷺ کا رنگ نمایاں ہے۔ ان کے خواب، ان کی آرزو، ان کا درد، سب اسی عشق کی پیداوار ہیں۔

اقبال صرف عاشقِ رسول ﷺ ہی نہیں بلکہ ایک سچے قومی شاعر بھی تھے۔ انہوں نے اپنی قوم کو خوابِ غفلت سے جگایا۔ اس وقت جب مسلمان مایوسی، غلامی اور پسپائی کا شکار تھے، اقبال نے انہیں یاد دلایا کہ تمہارا ماضی روشن ہے، تمہارے اندر صلاحیتیں ہیں، تم دنیا کی قیادت کے اہل ہو۔ انہوں نے خودی کا فلسفہ پیش کیا تاکہ مسلمان اپنی کھوئی ہوئی شناخت دوبارہ حاصل کر سکیں۔ اقبال کا "فلسفۂ خودی" دراصل ایک روحانی تحریک تھی، جو انسان کو اپنے اندر جھانکنے، اپنی حقیقت پہچاننے اور اپنے خالق سے براہِ راست تعلق قائم کرنے کی دعوت دیتا ہے۔

اقبال کے نزدیک خودی کا مطلب غرور یا انا نہیں، بلکہ یہ احساسِ ذمہ داری ہے یہ شعور ہے کہ انسان اللہ کی مخلوقِ خاص ہے اور اسے زمین پر خلافت کے فرائض ادا کرنے ہیں۔

یہی وہ سوچ تھی جس نے مسلمانوں کے دلوں میں نئی روح پھونکی۔ اقبال کی شاعری نے غلام ذہنوں کو آزاد سوچ دی، ان کے اندر خوداعتمادی پیدا کی اور انہیں اپنی منزل کا پتہ دیا۔ ان کی نظموں میں وہی ولولہ، وہی حرارت ہے جو قوموں کو اٹھا کر تاریخ بدل دیتی ہے۔

اقبال کی فکر صرف شاعری تک محدود نہیں تھی۔ وہ عملی سیاست اور قومی تحریکوں میں بھی فکری رہنمائی فراہم کرتے رہے۔ مسلم لیگ کی سیاسی سمت متعین کرنے میں اقبال کا کردار کلیدی تھا۔ 1930ء کے الٰہ آباد خطبے میں انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن کا تصور پیش کیا، ایک ایسا ملک جہاں مسلمان اپنی تہذیب، اپنے دین اور اپنی اقدار کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ یہی تصور بعد میں پاکستان کی صورت میں حقیقت بن گیا۔

علامہ اقبال کے خواب کی تعبیر صرف ایک سیاسی ریاست نہیں تھی، بلکہ ایک روحانی، اخلاقی اور علمی معاشرہ تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ پاکستان صرف جغرافیہ نہ ہو بلکہ ایک نظریہ ہو۔ وہ فرماتے ہیں کہ اگر پاکستان بن بھی جائے لیکن ہم اسلامی اصولوں پر عمل نہ کریں، تو وہ خواب ادھورا رہ جائے گا۔ اقبال کا تصورِ پاکستان دراصل "ریاستِ مدینہ" کے اصولوں پر مبنی تھا عدل، مساوات اور خدمتِ خلق۔

اقبال کی شاعری کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ نوجوانوں کے سب سے بڑے رہنما ہیں۔ انہوں نے نوجوانوں کو شاہین کا استعارہ دیا، ایک ایسا پرندہ جو بلند پرواز، غیرت مند اور خوددار ہے۔ اقبال چاہتے تھے کہ امت کے نوجوان شاہین بن جائیں، جو کسی کے آگے جھکیں نہیں، جو خود اپنی تقدیر کے خالق بنیں۔ اقبال کے نزدیک نوجوانوں کے اندر وہی قوت ہے جو ملت کو زندہ رکھ سکتی ہے۔

اقبال کا پیغام ہمیشہ زندہ رہے گا کیونکہ وہ قرآن و سنت سے جڑا ہوا ہے۔ ان کی شاعری وقت اور سرحدوں سے ماورا ہے۔ اقبال کی زبان اگرچہ فارسی اور اردو ہے، مگر ان کا پیغام عالمی ہے۔ وہ صرف برصغیر کے مسلمانوں کے شاعر نہیں بلکہ پوری امتِ مسلمہ کے ترجمان ہیں۔ ان کے اشعار آج بھی ترکی، ایران، افغانستان اور مشرقِ وسطیٰ کے علمی حلقوں میں پڑھے اور سمجھے جاتے ہیں۔

اقبال کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ عشقِ رسول ﷺ انسان کو کامل بناتا ہے، ایمان مضبوط کرتا ہے اور قوموں کو زندہ کرتا ہے۔ ان کا ایمان عقل سے متوازن تھا اور عقل عشق کے تابع تھی۔ وہ سمجھتے تھے کہ جب تک عشقِ رسول ﷺ نہ ہو، علم بیکار ہے، فلسفہ بے معنی ہے اور سیاست بے روح ہے۔

اقبال نے زندگی کے ہر مرحلے پر قرآن کو رہنما بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر مسلمان پھر سے عروج چاہتے ہیں تو انہیں قرآن کی طرف لوٹنا ہوگا۔ ان کے نزدیک قرآن ہی وہ سرچشمۂ ہدایت ہے جو قوموں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی دیتا ہے۔

یہ اقبال کی وہ صدا ہے جو آج بھی گونج رہی ہے۔ آج بھی اگر ہم اپنے حالات بہتر کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں اقبال کی فکر سے رہنمائی لینا ہوگی۔

علامہ اقبال کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں وہ شاعر بھی تھے، فلسفی بھی، وکیل بھی، مفکر بھی اور سب سے بڑھ کر ایک عاشقِ رسول ﷺ اور قوم کے سچے رہنما۔ ان کی شاعری میں درد ہے، آگ ہے، روشنی ہے اور انقلاب ہے۔ وہ ہمیں یہ سبق دیتے ہیں کہ زندگی کا مقصد صرف جینا نہیں بلکہ کسی اعلیٰ نصب العین کے لیے جینا ہے۔

اقبال کے کلام کو اگر دل سے پڑھا جائے تو ہر شعر ایک پیغام، ہر لفظ ایک درس اور ہر مصرعہ ایک دعا بن جاتا ہے۔ وہ آج بھی زندہ ہیں کیونکہ ان کی بات قرآن و سنت سے جڑی ہے، ان کی روح امت کے دلوں میں زندہ ہے اور ان کی فکر ہر دور کے لیے رہنما ہے۔

مگر قوم کے لیے اقبال کا پیغام آج بھی ویسا ہی تازہ ہے جیسا ان کے زمانے میں تھا۔ وہ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ اگر ہم عشقِ رسول ﷺ، خودی اور ایمان کی روشنی کو دل میں جگہ دے دیں، تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں شکست نہیں دے سکتی۔

اقبال کا نام ہمیشہ احترام کے ساتھ لیا جائے گا کیونکہ وہ صرف شاعرِ مشرق نہیں، بلکہ عاشقِ رسول ﷺ اور قوم کے روحانی معمار تھے۔ ان کی میراث الفاظ میں نہیں بلکہ فکر میں زندہ ہے اور جب تک امتِ مسلمہ موجود ہے، اقبال کی روشنی کبھی مدھم نہیں ہوگی۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari