Good Touch Aur Bad Touch
"گڈ ٹچ" اور "بیڈ ٹچ"

بچپن زندگی کا وہ حسین دور ہوتا ہے جہاں معصومیت، بھول پن اور بھروسہ سب کچھ ہوتا ہے۔ بچے کسی پر بھی اعتماد کر لیتے ہیں، چاہے وہ جاننے والا ہو یا اجنبی۔ ان کے چہرے پر مسکراہٹ ہو، ہاتھ میں کھلونا ہو، یا ذہن میں سوال، وہ ہر بات سادگی سے مان لیتے ہیں۔ لیکن یہی معصومیت بعض اوقات ان کے لیے خطرہ بن سکتی ہے اگر ہم انہیں بروقت اہم باتیں نہ سکھائیں۔
ہمیں اپنے بچوں کو پڑھانا، کھلانا اور پالنا آتا ہے، لیکن ان کی حفاظت سے متعلق باتیں کرنے میں ہچکچاتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ باتیں بچے بڑے ہو کر خود جان جائیں گے، یا یہ کہ ابھی وہ چھوٹے ہیں، ان باتوں کو سمجھ نہیں پائیں گے۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ بہت سے واقعات یہ ثابت کرتے ہیں کہ زیادتی کا نشانہ بننے والے اکثر کم عمر بچے ہوتے ہیں، جنہیں نہ یہ پتا ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ کچھ غلط ہو رہا ہے اور نہ ہی یہ کہ وہ کس سے مدد مانگیں۔
ایسے میں سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ہم بچوں کو "گڈ ٹچ" اور "بیڈ ٹچ" کے بارے میں کھل کر اور محبت سے سمجھائیں۔ گڈ ٹچ وہ ہوتا ہے جو ہمیں محفوظ، خوش اور پرسکون محسوس کروائے۔ جیسے ماں کا پیار سے گلے لگانا، والد کا ماتھے پر بوسہ دینا، یا استاد کا شاباش دیتے ہوئے کندھے پر ہاتھ رکھنا۔ یہ سب رابطے ہمیں اچھے لگتے ہیں کیونکہ ان میں محبت، شفقت اور تحفظ ہوتا ہے۔
اس کے برعکس، بیڈ ٹچ وہ ہوتا ہے جو ہمیں عجیب، بے چینی اور خوف کا احساس دلائے۔ اگر کوئی چھپ کر چھونے کی کوشش کرے، یا ہمیں کہے کہ یہ کسی کو نہ بتانا، تو یہ بیڈ ٹچ ہوتا ہے۔ اگر کوئی ہمارے جسم کے ایسے حصوں کو چھوئے جنہیں ہم عام طور پر کپڑوں سے ڈھانپتے ہیں، جیسے سینہ، پیٹ کے نچلے حصے، یا جسم کے پچھلے حصے، تو یہ قابلِ اعتراض عمل ہے، چاہے وہ کوئی قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔
بچوں کو یہ بات سمجھانا بے حد ضروری ہے کہ ان کا جسم ان کا اپنا ہے اور کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ بغیر اجازت ان کے جسم کو چھوئے۔ انہیں یہ سکھائیں کہ اگر انہیں کسی کا ٹچ برا لگے یا وہ پریشان محسوس کریں، تو فوراً "نہیں" کہیں، وہاں سے ہٹ جائیں اور اپنے ماں، باپ، یا کسی ایسے بڑے کو بتائیں جس پر وہ بھروسہ کرتے ہوں۔ ان پر یہ واضح کریں کہ انہیں کبھی بھی شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں، کیونکہ غلطی ان کی نہیں بلکہ اس شخص کی ہے جو انہیں نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے ایسے موضوعات کو شرم یا غیر ضروری سمجھ کر دبا دیا جاتا ہے۔ والدین بچوں سے صرف نصاب کی باتیں کرتے ہیں، جبکہ زندگی کی اصل تعلیمات، جیسے جسمانی حفاظت، اعتماد اور غلط کو پہچاننا، نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے خود اعتماد اور محفوظ رہیں، تو ہمیں ان کے ساتھ کھل کر یہ باتیں کرنا ہوں گی۔
یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ہر عمر کے بچے کو ان کی سمجھ کے مطابق یہ باتیں بتانا ضروری ہے۔ چار سے پانچ سال کے بچوں کو صرف اتنا بتانا کافی ہوتا ہے کہ ان کے جسم کے کچھ خاص حصے ہوتے ہیں جنہیں کوئی نہیں چھو سکتا اور اگر کوئی ایسا کرے تو وہ زور سے "نہیں" کہیں اور فوراً کسی بڑے کو بتائیں۔ جیسے جیسے عمر بڑھتی ہے، انہیں تفصیل سے سمجھایا جا سکتا ہے کہ کون سا رویہ نارمل ہے اور کون سا خطرناک۔
بچوں کو یہ بھی بتائیں کہ اگر کوئی ان سے کہے کہ یہ ایک کھیل ہے، یا یہ کہ یہ تمہارے اور میرے بیچ کا راز ہے، تو فوراً سمجھ جائیں کہ کچھ غلط ہے۔ ہر وہ بات یا عمل جو خفیہ رکھنے کو کہا جائے اور جس سے بچہ پریشان ہو، وہ خطرے کی گھنٹی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ جب کوئی بچہ اپنا دل کھول کر کچھ بتائے، تو والدین اس پر شک نہ کریں، اسے جھوٹا یا ڈانٹنے کے بجائے اس کی بات غور سے سنیں، یقین کریں اور اس کی مدد کریں۔ اکثر بچے اسی خوف سے کچھ نہیں بتاتے کہ انہیں ڈانٹ پڑے گی، یا کوئی ان پر یقین نہیں کرے گا۔ ہمیں اپنے بچوں کے لیے ایک ایسا ماحول پیدا کرنا ہے جہاں وہ خود کو محفوظ، سنا گیا اور اہم محسوس کریں۔
یہ مسئلہ صرف گھروں تک محدود نہیں ہونا چاہیے۔ اسکولوں میں، مدرسوں میں اور بچوں سے وابستہ ہر ادارے میں بچوں کو جسمانی حفاظت کے اصول پڑھائے جانے چاہییں۔ ان کے اندر یہ شعور پیدا کیا جانا چاہیے کہ وہ کسی بھی غلط بات کو پہچان سکیں اور اس کے خلاف آواز اٹھا سکیں۔
ہمیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ بچوں کو "اچھے" اور "برے" چھونے کی پہچان کروا دینا انہیں وقت سے پہلے بالغ بنانا نہیں بلکہ انہیں مضبوط، محفوظ اور باشعور بنانا ہے۔ ہمیں یہ بھی سکھانا ہوگا کہ کسی کے ظاہری رویے سے دھوکہ نہ کھائیں، کئی بار وہ لوگ جنہیں ہم سب سے زیادہ جانتے ہیں، وہی ہمارے اعتماد کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔
یاد رکھیں، ایک بچے کو تحفظ دینا صرف ایک والد یا والدہ کا نہیں، بلکہ ایک استاد، رشتہ دار، ہمسایہ اور پورے معاشرے کا فرض ہے۔ اگر ہم سب مل کر بچوں کو یہ تعلیم دیں کہ ان کا جسم صرف ان کا ہے اور ان کے جذبات اہم ہیں، تو شاید ہم کسی کے بچپن کو بکھرنے سے بچا لیں۔

