Cricket Mein Okara Kyun Peeche Reh Gaya?
کرکٹ میں اوکاڑہ کیوں پیچھے رہ گیا؟

اوکاڑہ کی سرزمین ہمیشہ سے زرخیز رہی ہے، یہاں کے کھیتوں میں سونا اگتا ہے اور یہاں کے لوگ اپنی محنت اور قابلیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جس دھرتی نے زراعت میں اپنی پہچان بنائی، وہ کرکٹ کے میدان میں کیوں پیچھے رہ گئی؟ دنیا بھر میں چھوٹے چھوٹے شہروں سے نوجوان نکل کر اپنے ملک کا نام روشن کرتے ہیں، مگر اوکاڑہ کی پہچان کرکٹ کے میدان میں آج بھی ماند ہے۔ اگر تاریخ کے اوراق پلٹیں تو اس شہر سے اسرار علی، ذوالفقار بابر اور عبدالرؤف جیسے چند کھلاڑی ضرور نکلے جنہوں نے قومی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا، لیکن ان کے بعد اوکاڑہ کی فہرست خاموش ہے۔ یہ سوال اہلِ شہر کے دلوں میں بار بار سر اٹھاتا ہے کہ آخر کیوں اوکاڑہ سے کرکٹ کے مزید سپاہی عالمی سطح پر نہ جا سکے؟
اس محرومی کی سب سے بڑی وجہ وہی ہے جس کی شکایت برسوں سے کی جا رہی ہے، یہاں کرکٹ کے لیے انفراسٹرکچر اور معیاری سہولیات کا فقدان ہے۔ کوئی بڑی اکیڈمی نہیں، نہ ہی ایسے کوچز جو نوجوانوں کے جوہر کو عالمی معیار پر نکھار سکیں۔ مقامی سطح پر مقابلے تو ہوتے ہیں مگر وہ اتنے غیر معیاری ہیں کہ ان سے نکلنے والا کھلاڑی قومی سطح کی سخت کرکٹ کا بوجھ برداشت نہیں کر پاتا اور جو محنت کے بل بوتے پر تھوڑا آگے بڑھنے کی کوشش بھی کرے، وہ سفارش اور تعلقات کے چکر میں پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے۔
اوکاڑہ میں کھیل کو فروغ دینے کے بجائے سیاست اور ذاتی مفادات نے بھی ہمیشہ کھلاڑیوں کے راستے میں دیوار کھڑی کی ہے۔ ڈسٹرکٹ کرکٹ ایسوسی ایشنز کی سیاست، گروپ بندی اور ذاتی پسند نا پسند نے ایسے کئی نوجوانوں کے خواب توڑ دیے جو کچھ بن سکتے تھے۔ بڑے شہروں جیسے لاہور اور کراچی کے کھلاڑیوں کو ترجیح دی جاتی ہے جبکہ اوکاڑہ جیسے شہروں کے باصلاحیت نوجوان مسلسل نظر انداز ہوتے رہے ہیں۔
والدین کا رجحان بھی کھیل کی بجائے تعلیم یا روزگار کی طرف زیادہ ہے، کیونکہ یہاں کرکٹ کو کیریئر کے طور پر اپنانا اب بھی ایک خواب جیسا ہے۔ اسپانسرشپ کی کمی، مالی وسائل کا فقدان اور مواقع کی عدم دستیابی نے نوجوانوں کے حوصلے مزید پست کیے ہیں۔ اکثر نوجوان جو کرکٹ میں کچھ کر دکھانے کا عزم رکھتے ہیں وہ لاہور یا دوسرے بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں اور جو یہ نہیں کر پاتے وہ چند سال کی جدوجہد کے بعد کھیل کو خیر باد کہہ دیتے ہیں۔
یہ تمام صورتحال افسوسناک ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں کہ اوکاڑہ بھی کرکٹ کا ایک مضبوط مرکز بن سکے۔ اگر یہاں معیاری اکیڈمیاں قائم ہوں، جدید سہولیات فراہم کی جائیں، کوچنگ کا معیار بلند کیا جائے اور سب سے بڑھ کر ٹیلنٹ کو سفارش پر ترجیح دی جائے تو یہ شہر بھی ملک کو عظیم کرکٹرز دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہاں کے نوجوانوں میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں، کمی صرف مواقع کی ہے۔
اوکاڑہ کا نام آج زرعی پیداوار کی بدولت پہچانا جاتا ہے، مگر اگر کرکٹ کے خوابوں کو حقیقت کا رنگ دیا جائے تو یہ شہر کھیل کے میدان میں بھی جھنڈا گاڑ سکتا ہے۔ فرق صرف سہولتوں اور مواقع کا ہے اور اوکاڑہ کے نوجوان آج بھی اسی لمحے کے منتظر ہیں جب ان کا وقت آئے گا اور یہ دھرتی پھر ایک نیا اسرار علی، ذوالفقار بابراور ایک نیا عبدالرؤف یا اس سے بھی بڑا نام پیدا کرے گی۔

