Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hussnain Nisar
  4. Cricket Aik Aur Haar

Cricket Aik Aur Haar

کرکٹ ایک اور ہار

ایشیا کپ 2025 کا فائنل وہ دن تھا جس کا ہر پاکستانی شائقین کرکٹ بے صبری سے انتظار کر رہا تھا۔ امیدیں بہت زیادہ تھیں کہ اس بار شاید قسمت کا پانسہ پلٹے اور پاکستان بھارت کے خلاف ایک بڑی جیت درج کرے۔ آغاز میں واقعی ایسا لگا کہ ٹیم کچھ خاص کرنے جا رہی ہے۔ اوپنرز نے شاندار بیٹنگ کا مظاہرہ کیا اور ایک بنیاد فراہم کر دی، مگر جیسے ہی مڈل آرڈر اور لوئر آرڈر بلے باز میدان میں آئے تو سارا کھیل بکھر گیا۔ وکٹیں ایسے گرنے لگیں جیسے خزاں کے موسم میں پتے گرتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک مضبوط آغاز بھی پاکستان کو بڑے مجموعے تک نہ پہنچا سکا اور ٹیم اپنی ہی کمزوریوں کے بوجھ تلے دب گئی۔

پاکستان کرکٹ ہمیشہ اپنی بولنگ پر ناز کرتی آئی ہے۔ دنیا بھر میں پاکستانی فاسٹ بولرز نے اپنی تیز رفتاری اور کاٹ دار گیندوں سے شہرت کمائی۔ لیکن اس فائنل میں یہ شعبہ بھی وہ کارکردگی دکھانے میں ناکام رہا جس کی شائقین کو امید تھی۔ شاہین شاہ آفریدی نے اپنی بھرپور کوشش کی، لیکن بھارتی بلے بازوں نے انہیں بڑی سمجھداری سے کھیلا۔ دوسری طرف حارث رؤف اپنی پرانی کمزوریوں کے ساتھ نظر آئے: لائن اور لینتھ پر قابو نہ پانا، غیر ضروری شارٹ پچ گیندیں اور دباؤ کے وقت بے بس ہو جانا۔ آل راؤنڈر فہیم اشرف بھی گیند اور بیٹ دونوں سے کوئی خاص کردار ادا نہ کر سکے۔ یہ ایک اور جھٹکا تھا جو ٹیم کو مزید کمزور کرتا گیا۔ بھارت کے بلے باز ہر موقع کا فائدہ اٹھاتے رہے اور سکور بورڈ کو آگے بڑھاتے گئے۔

اصل مسئلہ لیکن پاکستان کی بیٹنگ ہی ہے۔ برسوں سے یہ کمزور کڑی ہے جس کی وجہ سے بڑے میچز ہاتھ سے نکل جاتے ہیں۔ کسی دور میں پاکستان کے پاس یونس خان، محمد یوسف اور انضمام الحق جیسے بلے باز تھے جو مشکل وقت میں کھڑے ہو جاتے تھے۔ آج کے دور میں ایسا کوئی کھلاڑی نظر نہیں آتا جو دباؤ میں کھڑے ہو کر میچ کو جیت میں بدل سکے۔ بھارت کے پاس ویرات کوہلی، روہت شرما اور شبمن گل جیسے کھلاڑی ہیں جو بڑے میچوں میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں، مگر پاکستان کے بیٹسمین دباؤ کے سامنے جھک جاتے ہیں۔

پاکستان کرکٹ بورڈ اور ٹیم مینجمنٹ کا کردار بھی سوالیہ نشان ہے۔ اگر برسوں سے یہی مسائل بار بار سامنے آ رہے ہیں تو ان کا حل کیوں نہیں نکالا جا رہا؟ بار بار کپتان اور کوچ تبدیل کرنے سے مسئلے حل نہیں ہوں گے۔ بھارت کی مثال سامنے ہے جہاں ایک منظم ڈومیسٹک اسٹرکچر ہے جو مسلسل نئے کھلاڑی پیدا کرتا ہے اور ان کو بڑے میچز کے لیے تیار کرتا ہے۔ پاکستان میں ڈومیسٹک کرکٹ صرف رسمی کارروائی بن کر رہ گئی ہے۔ سفارش اور دوستی پر کھلاڑی آگے آتے ہیں، پرفارمنس کا معیار پیچھے رہ جاتا ہے۔

اگر پاکستان کو واقعی اپنی کرکٹ بہتر کرنی ہے تو سب سے پہلے ڈومیسٹک کرکٹ کو مضبوط بنانا ہوگا۔ صرف وہی کھلاڑی آگے آئیں جو کارکردگی دکھائیں۔ مڈل آرڈر کے لیے لمبے عرصے کی منصوبہ بندی ضروری ہے۔ ٹیم کو ذہنی طور پر مضبوط کرنے کے لیے اسپورٹس سائیکالوجسٹ کی مدد لینی چاہیے تاکہ کھلاڑی دباؤ کے لمحات میں ٹوٹنے کے بجائے لڑ سکیں۔ بیٹنگ کوچز کو جدید ٹیکنیک کے ساتھ کام کرنا ہوگا اور نوجوان کھلاڑیوں کو عالمی معیار پر تیار کرنا ہوگا۔

جہاں تک یہ سوال ہے کہ کیا پاکستان کبھی بھارت کے خلاف بڑے میچ جیت سکے گا، تو اس کا جواب "ہاں" بھی ہے اور "نہیں" بھی۔ "ہاں" تب جب پاکستان اپنی کرکٹ میں بنیادی اصلاحات کرے گا، ڈومیسٹک سسٹم بہتر بنائے گا اور کھلاڑیوں کو اعتماد دے گا۔ "نہیں" تب جب یہ سب کچھ محض بیانات اور وعدوں تک محدود رہے گا۔ بھارت کو شکست دینا ناممکن نہیں لیکن اس کے لیے وہی جانفشانی، مستقل مزاجی اور منصوبہ بندی چاہیے جو اس وقت پاکستان کرکٹ میں ناپید ہے۔

پاکستانی عوام بار بار مایوس ضرور ہوتے ہیں مگر ان کا عشق کرکٹ کے ساتھ کم نہیں ہوتا۔ ایشیا کپ 2025 کے فائنل نے پھر دکھایا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور کیا کمی ہے۔ اب یہ پاکستان کرکٹ بورڈ اور کھلاڑیوں پر ہے کہ وہ اس شکست کو ایک سبق سمجھیں یا محض ایک اور بھلا دیا جانے والا واقعہ۔ جیت کبھی ایک دن میں نہیں آتی، اس کے لیے برسوں کی محنت چاہیے۔ اگر پاکستان نے اپنی اصلاحات کر لیں تو وہ دن دور نہیں جب بڑے ٹورنامنٹ کے فائنل میں بھارت کو شکست دینا بھی ممکن ہوگا۔ لیکن اگر موجودہ روش برقرار رہی تو شاید یہ سوال آئندہ بھی وہی رہے گا کہ "کیا ہم بھارت کو کبھی ہرا سکیں گے؟"

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan