Wednesday, 02 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hussnain Nisar
  4. Chacha, Rishte Ki Khubsurti Ya Talkhi

Chacha, Rishte Ki Khubsurti Ya Talkhi

چچا، رشتے کی خوبصورتی یا تلخی

چچا کا پیار باپ جیسا ہوتا ہے، مگر اس میں ایک خاص نرمی اور شفقت شامل ہوتی ہے جو بعض اوقات والد سے بھی بڑھ کر محسوس ہوتی ہے۔ چچا کی محبت میں وہ لاڈ، وہ بے تکلفی اور وہ اپنائیت ہوتی ہے جو رشتے کو اور بھی مضبوط کر دیتی ہے۔ وہ ایک ایسا سایہ ہوتا ہے جو نہ صرف بچوں کی خوشیوں میں شریک ہوتا ہے بلکہ مشکل وقت میں ایک مضبوط سہارا بھی بنتا ہے۔

چچا، خاندان کا وہ رشتہ ہے جو بعض اوقات باپ جیسا پیار دیتا ہے اور بعض اوقات دوست جیسی رفاقت۔ کچھ چچا اپنے بھتیجوں اور بھتیجیوں کے لیے سایۂ شفقت ہوتے ہیں، ہر موڑ پر ان کا ہاتھ تھامنے والے، محبت کرنے والے اور رہنمائی فراہم کرنے والے۔ مگر ہر رشتہ ہمیشہ ایک جیسا نہیں ہوتا۔ بعض اوقات، چچا بھی ایسا رویہ اختیار کر لیتے ہیں جو حیران کن ہوتا ہے وہ شریک بن جاتے ہیں، مقابلے کی دوڑ میں آجاتے ہیں اور بھتیجوں کے لیے مسائل پیدا کرنے لگتے ہیں۔

یہ دو انتہائیں ہیں اور حقیقت ان دونوں کے درمیان کہی جا سکتی ہے۔ ایک طرف وہ چچا ہیں جو اپنے بھتیجوں کو اولاد سے بڑھ کر چاہتے ہیں، ان کی تعلیم، کیریئر اور زندگی کے ہر پہلو میں رہنمائی کرتے ہیں، ان کے لیے قربانیاں دیتے ہیں اور والد کی غیر موجودگی میں ان کے حقیقی سرپرست بن جاتے ہیں۔ دوسری طرف وہ چچا بھی ہیں جو جائیداد، عزت یا کسی اور ذاتی مفاد کے باعث اپنے ہی بھتیجوں کے مخالف بن بیٹھتے ہیں۔

یہ فرق کیوں آتا ہے؟ شاید اس کی جڑیں انسانی فطرت میں ہیں۔ کچھ لوگ دوسروں کے لیے نیک نیتی سے جیتے ہیں، جبکہ کچھ کو اپنی ذات کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ ایک اچھے چچا کا کردار ہمیشہ یاد رکھا جاتا ہے، وہ اپنی شفقت اور محبت کے ذریعے بھتیجوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتا ہے، جبکہ خودغرض رویہ وقت کے ساتھ مٹ جاتا ہے۔

چچا کا رشتہ جتنا مضبوط اور خالص ہو، اتنا ہی خاندان میں محبت اور اتحاد بڑھتا ہے۔ اگر ہر چچا اپنے بھتیجوں کے لیے خیر خواہ بن جائے، تو نہ صرف خاندان مضبوط ہوگا بلکہ معاشرہ بھی مثبت رویوں کا گہوارہ بن جائے گا۔

حضرت امیر حمزہؓ نبی کریمﷺ کے چچا تھے، مگر ان کا رشتہ صرف چچا بھتیجے کا نہیں تھا، بلکہ وہ آپﷺ کے محسن، حمایتی اور جاں نثار ساتھی بھی تھے۔ وہ محض رشتہ داری کے ناتے آپ ﷺ کے قریب نہ تھے بلکہ دل سے آپﷺ کی محبت اور وفاداری میں زندگی گزارنے والے تھے۔

ابتدائی دور میں، جب نبی کریمﷺ نے دعوتِ حق کا آغاز کیا تو قریش کے سردار اور ان کے پیروکار شدید مخالفت پر اتر آئے۔ ان حالات میں حضرت حمزہؓ کی شخصیت ایک مضبوط دیوار بن کر سامنے آئی۔ وہ نہ صرف جسمانی طور پر بہادر اور طاقتور تھے بلکہ جذباتی اور روحانی طور پر بھی نبی کریمﷺ کے ساتھ کھڑے تھے۔ ان کے اسلام قبول کرنے کا واقعہ بھی ان کی غیرت اور نبی کریمﷺ سے بے پناہ محبت کو ظاہر کرتا ہے۔ جب ابو جہل نے نبی کریمﷺ کی توہین کی تو حضرت حمزہؓ کو جیسے ہی خبر ملی، وہ شدید غصے میں آئے اور بنا کسی جھجک کے ابو جہل کو جا کر اس کے سر پر اپنی کمان دے ماری۔ یہی وہ لمحہ تھا جب انہوں نے کھل کر اعلان کیا کہ اگر محمدﷺ سچائی کی دعوت دے رہے ہیں، تو وہ بھی اسی پر ایمان لاتے ہیں۔

اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت حمزہؓ نبی کریمﷺ کے سب سے بڑے محافظوں میں شامل ہو گئے۔ وہ ہمیشہ نبی کریمﷺ کے ساتھ رہتے اور جب بھی کسی نے آپﷺ کی توہین کی کوشش کی، حضرت حمزہؓ پوری شدت سے جواب دیتے۔ جنگِ بدر میں ان کی بہادری نے دشمنوں کے دل دہلا دیے اور جنگِ اُحد میں بھی وہ اپنے بھتیجے کے دفاع میں آخری دم تک لڑے۔ یہ وہی جنگ تھی جس میں وہ دشمنوں کی سازش کا شکار ہو کر شہید ہوئے۔ ان کی شہادت پر نبی کریمﷺ اتنے افسردہ ہوئے کہ ان کا غم الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔

حضرت حمزہؓ کی محبت صرف الفاظ کی محتاج نہیں تھی، بلکہ ان کی ہر حرکت، ہر جنگ، ہر فیصلہ یہ ثابت کرتا تھا کہ وہ نبی کریمﷺ کے صرف چچا نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں ایک جاں نثار، ایک وفادار دوست اور ایک عظیم محافظ تھے۔ ان کی قربانی رہتی دنیا تک ایک مثال بنی رہے گی۔

Check Also

Narmi Aur Hikmat, Tableegh Ka Sunehri Usool

By Amirjan Haqqani