Barishon Mein Bebas Zindagi
بارشوں میں بے بس زندگی

جولائی کی موسلا دھار بارشیں ایک بار پھر شہری زندگی کا نظام درہم برہم کر چکی ہیں۔ آسمان سے برستی بےرحم بوندوں نے ایک جانب موسم کو خوشگوار ضرور بنایا، مگر دوسری جانب یہ نعمت زحمت بن گئی۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی جب مون سون نے قدم رکھا تو دعائیں، خوشیاں اور استقبال کے خوبصورت الفاظ سننے کو ملے، مگر جیسے ہی بارش نے اپنے رنگ دکھانے شروع کیے، شہر پانی پانی ہو گئے، گلیاں جھیل بن گئیں اور شہریوں کی زندگی کی کشتی ہچکولے کھانے لگی۔
ایسا لگتا ہے جیسے بارش کے آتے ہی انتظامیہ بھی چھٹی پر چلی جاتی ہے۔ نکاسی آب کا نظام ہر بار کی طرح اس بار بھی ناکام رہا۔ گٹر اُبلنے لگے، سڑکیں دریا بن گئیں اور لوگ کشتیوں کے بغیر ہی پانی میں راستے تلاش کرتے رہے۔ سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں نشیبی آبادیاں شامل ہیں جہاں گھروں کے اندر پانی گھس گیا۔ فرش پر بچھے قالین، بستر، برتن، حتیٰ کہ چولہے بھی پانی میں تیرنے لگے۔ بچے، بوڑھے، عورتیں سب ایک ہی سوال کرتے نظر آئے: "یہ بارش ہے یا عذاب؟"
اوکاڑہ، لاہور، کراچی، فیصل آباد اور دیگر بڑے شہروں میں حالیہ بارشوں نے جس طرح عوام کو مشکلات سے دوچار کیا ہے، وہ نہ صرف ناقص منصوبہ بندی کا منہ بولتا ثبوت ہے بلکہ ایک قومی سانحہ بھی بن چکا ہے۔ صرف پانی ہی نہیں، بلکہ بجلی کی طویل بندش، ٹرانسپورٹ کا بند ہونا، اسپتالوں میں ایمرجنسی سروسز کا متاثر ہونا، سب کچھ اس بارش کے ساتھ جڑ چکا ہے۔ کئی علاقوں میں 10 سے 12 گھنٹے تک بجلی غائب رہی۔ بجلی نہ ہو تو پانی کا پریشر ختم، موبائل سگنلز بند اور زندگی مفلوج ہو جاتی ہے۔
حکومت کی جانب سے دعوے کیے جاتے ہیں کہ اربوں روپے نکاسی آب کے منصوبوں پر خرچ کیے جا رہے ہیں، لیکن نتائج ہر بار صفر نکلتے ہیں۔ نکاسی کے نالے برسوں سے صاف نہیں کیے جاتے اور جب بارش ہوتی ہے تو گندگی کے انبار بندش کا سبب بن جاتے ہیں۔ شہروں میں ترقیاتی منصوبے بڑے زور و شور سے شروع کیے جاتے ہیں لیکن بنیادی انفرا اسٹرکچر پر توجہ نہیں دی جاتی۔ جب پانی گلیوں میں کھڑا ہو جائے تو کسی بھی مہذب شہر کا تصور خاک میں مل جاتا ہے۔
بارش جہاں ایک نعمت ہے، وہیں اس کی منصوبہ بندی کے بغیر یہ ایک عذاب کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ دیہات میں بارش خوشحالی کی نوید لاتی ہے، فصلوں کو پانی ملتا ہے، کنویں اور ندی نالے بھر جاتے ہیں۔ مگر شہروں میں یہ تباہی کا پیش خیمہ بن جاتی ہے۔ سڑکوں پر پانی، بجلی کے کھمبوں میں کرنٹ، گٹر سے اُبلتا گند، یہ سب کچھ شہریوں کی زندگی کو شدید خطرات سے دوچار کر دیتا ہے۔
ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ کب تک ہم اس بارش کو ہر سال زحمت کے طور پر دیکھتے رہیں گے؟ کب تک لوگ اپنی گاڑیاں دھکیلتے رہیں گے، بچوں کو اسکول چھوڑنے والے والدین پانی میں لت پت ہوتے رہیں گے اور اسپتالوں کے راستے بند ہوتے رہیں گے؟ کب تک بارش کے چند قطرے ہماری انتظامیہ کی کارکردگی کو بےنقاب کرتے رہیں گے؟
آج کا جدید دور ہمیں چیلنجز کے ساتھ حل بھی دیتا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں بارش کا پانی ذخیرہ کیا جاتا ہے، نکاسی آب کے ایسے سسٹمز ہیں جو چند منٹوں میں سڑکیں صاف کر دیتے ہیں، لیکن ہمارے ہاں ابھی تک وہی پرانی نالیاں اور گٹر ہیں جن کی صفائی سال میں ایک بار ہوتی ہے، وہ بھی دکھاوے کے طور پر۔
شہریوں کو بھی اپنی ذمے داری نبھانی ہوگی۔ پلاسٹک بیگ، کوڑا کرکٹ، بوتلیں، کھانے کے لفافے جب ہم خود نالیوں میں پھینکیں گے تو پھر بارش کے پانی کو بہنے کا راستہ کہاں ملے گا؟ شہری شعور اور انتظامیہ کی منصوبہ بندی مل کر ہی اس مسئلے کو حل کر سکتے ہیں۔
آج بارشوں کا سلسلہ ابھی جاری ہے۔ موسم کی پیشگوئی کے مطابق آئندہ دنوں میں مزید بارشوں کی امید ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہنگامی بنیادوں پر صفائی، نکاسی آب اور بجلی کی بحالی کے اقدامات کیے جائیں۔ ورنہ یہی بارشیں جو کبھی نعمت تھیں، قہر بن کر برسیں گی۔

