Monday, 18 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hussnain Nisar
  4. Bani e Pakistan

Bani e Pakistan

بانیِ پاکستان

قائداعظم محمد علی جناح یہ اس عظیم لیڈر کا نام ہے جس کی وجہ سے ہم ایک الگ ملک کی پہچان رکھتے ہیں۔ قائد اعظم 25 دسمبر 1887 کوکراچی میں پیدا ہوئے اسی لیے 25 دسمبر 2023کے دن کو ہر سال کی طرح اس سال بھی قائداعظم کی پیدائش کے دن پر یاد رکھا جائے گا۔ آپ کے والد گجرات کے ایک مالدار تاجر تھے جو کہ جناح کی پیدائش سے کچھ عرصہ پہلے کاٹھیاوار سے کراچی منتقل ہو گئے۔

اُن کے دادا کا نام جناح میگجی تھا، جوکہ کاٹھیاوار کی ریاست گوندل میں بھاٹیا نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ ابتدائی طور پر یہ گھرانہ ہجرت کرکے ملتان کے نزدیک ساہیوال میں آباد ہوا۔ جناح کے آباؤ اجداد ساہیوال، پنجاب سے تعلق رکھنے والے ہندو راجپوت تھے جوکہ بعد میں مسلمان ہوگئے۔ جناح کے دیگر بہن بھائیوں میں تین بھائی اور تین بہنیں تھیں، بھائیوں میں احمد علی، بندے علی اور رحمت علی جبکہ بہنوں میں مریم جناح، فاطمہ اور شیریں جناح شامل تھیں۔

عظیم قائد محمد علی جناحؒ نے برصغیر کے مسلمانوں کو علیحدہ شناخت اور نصب العین دیا، قائد اعظم قیامِ پاکستان کے بعد 11 ستمبر 1948ء کو اپنی وفات تک ملک کے پہلے گورنر جنرل رہے، ان کو ہم سے بچھڑے 75 برس بیت چکے ہیں، قائد اعظم کی آخری آرام گاہ کراچی میں موجود ہے، مزار قائد کے احاطے میں ہی ایوان نوادرات ہے جہاں بابائے قوم کے زیر استعمال رہنے والا سامان موجود ہے۔

کراچی کے پیدائشی اور لنکن ان سے بیرسٹری کی تربیت حاصل کرنے والے جناح، بیسویں صدی کے ابتدائی دو عشروں میں آل انڈیا کانگریس کے اہم رہنما کے طور پر ابھرے۔ اپنی سیاست کے ابتدائی ادوار میں انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کے لیے کام کیا۔ 1916 میں آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگریس کے مابین ہونے والے میثاق لکھنو کو مرتب کرنے میں بھی انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ جناح آل انڈیا ہوم رول لیگ کے اہم رہنماوں میں سے تھے، انہوں نے چودہ نکات بھی پیش کیے، جن کا مقصد ہندوستان کے مسلمانوں کے سیاسی حقوق کا تحفظ کرنا تھا۔ بہر کیف جناح 1920 میں آل انڈیا کانگریس سے مستعفی ہو گئے، جس کی وجہ آل انڈیا کانگریس کے موہن داس گاندھی کی قیادت میں ستیاگرا کی مہم چلانے کا فیصلہ تھا۔

بچپن اور لڑکپن میں قائد اعظم کو کرکٹ میں اور اسنوکر میں دلچسپی تھی اس کی وجہ یہ تھی کہ اس زمانے میں کرکٹ کی آڑ میں عام و خاص جوا نہیں کھیلا کرتے تھے اور اسنوکر کی میز گلی محلے کے آوارہ و لفنگے لڑکوں کے ملنے کا ٹھکانہ نہیں ہوا کرتی تھی۔

ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد جناح اعلی تعلیم کے لیے انگلینڈ چلے گیے۔ قائد اعظم قانون دان بننے کے بعد پاکستان لوٹ آئے اور کراچی کی بجائے بمبئی کو مسکن بنایا۔ 1910 میں آپ بمبئی سے اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ آپ نے اپنی سیاست کے لیے کانگریس کو چنا اور آپ کی مخلصانہ کوششوں کی وجہ سے آپ کو ہندو مسلم اتحاد کا سفیر کہا گیا کہ تب تک ہندوؤں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ انگریز چلے جائیں گے اور ان کے ہاتھ اقتدار آ جائے گا اور وہ تب تک برصغیر کی واحد جماعت نمائندہ جماعت کہلانے کے چکر میں تھے ادھر قائد اعظم بھی تب تک اپنوں بیگانوں سے ناواقف تھے۔

1913 میں آپ نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی جو تب تک محض ایک نمائشی جماعت تھی اور چند نوابوں نے مسلمانوں کے حقوق انگریزوں کو بتانے کی خاطر بنائی تھی۔ 1920 میں آپ نے کانگریس سے استعفیٰ دے دیا کیونکہ آپ کو گاندھی سے اختلاف پیدا ہوگئے تھے کہ کئی لوگ اب تک گاندھی جی کی سیاست نہیں سمجھ پائے قائد اعظم تب ہی سمجھ کر ایک طرف ہو گئے تھے۔

1929 میں قائد اعظم نے اپنے مشہور زمانہ چودہ نکات پیش کیے جن کو تاریخ دان پاکستان کی طرف پہلا قدم کہتے ہیں۔ خوش قسمتی رہی کہ یہ نکات 1929 میں پیش کیے اب پیش کرتے تو اور نہیں تو کم از کم غداری کا الزام ضرور لگ جانا تھا ان پر کہ اس میں صوبہ توڑنے کی بات کی گئی تھی (سندھ کو بمبئی سےعلیحدہ کرنا) اب تو لوگ کہتے ہیں ملک بھلے ٹوٹ جائے صوبہ نہیں توڑیں گے۔

1930 میں آپ نے گول میز کانفرنس میں شرکت کی لیکن 1931 میں انہوں نے دلبرداشتہ ہو کر فیصلہ کیا کہ وہ لندن میں ہی رہ جائیں۔ اس فیصلے پر ہندوں نے بھی شکر ادا کیا اور ان مسلمانوں نے بھی جن کی قائد کی موجودگی میں ہند میں دال گلتی نہیں دکھ رہی تھی لیکن 1934 میں علامہ اقبال اور چند دیگر راہنماؤں نے ان کو قائل کیا کہ اب برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کا مستقبل ان کے ہاتھ میں ہے اور ان کے علاوہ کوئی ذات نہیں جو ان مسلمانوں کا جن کے بچوں نے بڑے ہو کر انہی پر تنقید کرنی ہے کو درست راہ پر گامزن کر سکے۔ علامہ اقبال تو خیر جلد ہی فوت ہوگئے تاہم بقیہ قائل کرنے والے راہنماؤں کے ساتھ ہماری قوم اور لیڈران نے وہ سلوک کیا جو آپ کی ہندستانی سیاست میں واپسی پرہندوؤں نے سوچا تھا۔

1946 میں کانگریس کی کئی چالیں، زبان بدلنے اور موقع پرستی کے مواقع کے بعد آخر کار الیکشن ہوئے جس میں مسلم لیگ نے کانگریس جو مسلمانوں اور ہندؤں دونوں کی نمائندہ ہونے کی دعویدار تھی کو چھٹی کا دودھ دلا دیا اور انگریزوں کو یہ بات پتہ لگ گئی کہ مسلم لیگ ہی مسلمانوں کی نمائندہ ہے۔

قائد اعظم نے فرمایا کہ پاکستان اسی دن وجود میں آگیا تھا جس دن برصغیر میں پہلا مسلمان ہوا تھا یہ وہ پاکستان تھا جو قائد اعظم نے سوچا تھا جبکہ آج کے پاکستان کے حساب سے پاکستان اس دن وجود میں آیا تھا جس دن برصغیر مین دوسرا مسلمان ہوا تھا کہ یہاں اپنے اسلام سے زیادہ لوگ دوسروں کے اسلام میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

قائد اعظم نے خود فرمایا کہ پاکستان اللہ کی مدد سے میں نے اور میری قوم نے بنایا بقیہ لیڈر تو گویا میری جیب میں چند کھوٹے سکے ہیں۔ قائد اعظم خود تو اچھے وقتوں میں اللہ میاں کے پاس چلے گئے اور ہمیں اور ہمارے ملک کو ان کھوٹے سکوں کے حوالے کر گئے جنہوں نے ہماری راہ کھوٹی کی، منزل کھوٹی کی، نیت کھوٹی کی اور ہمیں بھی اپنے جیسا کھوٹا بنا کر چھوڑا۔

آخر کا قائداعظم کی بھر پور کوشیشوں کی بدولت پاکستان 14 اگست 1947کو وجود میں آیا۔ پاکستان بننے کے بعد قائد کو کم وقت ملا تھا اس ملک کی خدمت کے لیے 11 ستمبر 1948 کو قائد اعظم خالق حقیقی سے جا ملے۔ قائد اعظم کے بعد اس قوم کو احساس ہوا کہ وہ کتنے اہم شخصیت تھے کہ اس کے بعد ہر کام میں ہماری بد نیتی آڑے آئی اور جہاں سے چلے تھے درحقیقت اس سے بھی پیچھے پہنچ چکے ہیں۔

دنیا کا سب سے طاقتور پاسپورٹ، جسکی دو لائنیں مٹانے کیلے اسرائیل مرا جا رہا ہے لیکن انشاءاللہ یہ دو لائنیں قیامت تک نہیں مٹیں گی۔ پاکستان کے لیے قائد اعظم محمد علی جناح کا فرمان ہے کہ پاکستان قائم رہنے کے لیے بنا ہے اور ہمیشہ قائم رہے گا، یہ وہ الفاظ ہیں جو ہر پاکستانی کے دل کی آواز ہیں۔

قائدِ اعظم کے لیے یہ بات کہنا غلط نہ ہوگی کہ وہ ایک ایسی تاریخ ساز شخصیت تھے جو کہیں صدیوں میں جا کر پیدا ہوتی ہے۔

"جناح آف پا کستان" کے مصنف پروفیسر اسٹینلے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا امریکہ اپنے کتاب کے دیباچے میں لکھتے ہیں۔

"بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو تاریخ کا دھارا بدل دیتے ہیں اور ایسے لوگ تو اور بھی کم ہوتے ہیں جو دنیا کا نقشہ بدل کر دیتے ہیں اور ایسا تو کوئی کوئی ہوتا ہے جو ایک نئی مملکت قائم کر دے۔ محمد علی جناح ایک ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے بیک وقت تینوں کارنامے کر دکھائے"۔

پاکستان حاصل کرتے وقت قائداعظم کے ساتھ کی وجہ سے ہر کام آسان ہوگیا تھا اور آج کے پاکستان میں جناح کی تصویر دیکھا کر ہر کام آسانی سے ہو جاتاہے۔۔

Check Also

Darya e Sindh Ki Kahani, Usi Ki Zubani

By Rao Manzar Hayat