Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hussnain Nisar
  4. Baba Fareed Aur Bahishti Darwaza

Baba Fareed Aur Bahishti Darwaza

بابا فرید اور بہشتی دروازہ

سرزمین پنجاب جو اپنے پانچ دریاؤں کی روانی اور زرخیزی کی وجہ سے کل خطہ اراضی میں ایک امتیازی و انفرادی شان رکھتی ہے وہیں اس سرزمین کے چپے چپے سے ہدایت و روحانیت کے دریا بھی رواں رہے ہیں۔ اس خطے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص بندوں سے رشد و ہدایت، فیض و شفا اور روحانیت کے ایسے دریا رواں فرمائے ہیں کہ جن سے دلوں کی بنجر زمین آباد ہوئی، حقائق و معرفت کی کھیتی اُگی اور تلاشِ حق میں سرگرداں سیراب ہوئے۔

انہی روحانی دریاؤں میں ایک اہم دریائے حکمت و معرفت، منبع سرچشمہ ہدایت، مرکز ولایت حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکرؒ کا مزارِ پُرانوار ہے۔ فرید الدین گنج شکر کا اصل نام مسعود اور لقب فرید الدین تھا۔ آپ کی ولادت 1174ء بہ مطابق 589ھ میں ہُوئی اور وصال1265ء بہ مطابق 666ھ میں ہوا۔ آپ کا خاندانی نام فرید الدین مسعود ہے اور والدہ کا نام قرسم خاتونؒ اور والد محترم قاضی جلال الدین ہیں۔

پاکپتن شریف، حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر کی درگاہ کی نسبت سے پوری دُنیا میں منفرد اور مقدس مقام رکھتا ہے۔ حضرت بابا فریدؒ برِصغیر پاک و ہند کے بہت بڑے ولی، دانشور اور صوفی شاعر تھے۔ انہیں پنجابی کا پہلا شاعر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ آپ کے وصال کے بعد خواجہ نظام الدین اولیاؒ نے آپ کا مزار نہایت عقیدت سے پاکپتن میں تعمیر کروایا۔ اس مزار کے دو دروازے ہیں ایک مشرقی جانب جہاں سے عام دِنوں میں زائرین گزر کر بابا صاحب کی لحد تک پہنچتے ہیں۔

دوسرا دروازہ جنوبی جانب ہے جسے بہشتی دروازہ (بابِ جنت) بھی کہا جاتا ہے۔ اس دروازے کے بارے میں ایک بشارت ہے کہ حضرت نظام الدین اولیاؒ نے بچشمِ باطن حضورﷺ کو اس دروازے سے گزرتے دیکھا حضرت نظام الدین اولیاؒ نے اشارہ غیبی سے روضہ مبارک کی بنیاد ایسی پاک اینٹوں پر رکھی تھی جن پر قرآن پاک ختم کیے گئے تھے۔ (ایک روایت کے مطابق ایک ایک اینٹ پر قرآن مجید کی تلاوت کی گئی تھی)۔

جب خواجہ نظام الدین اولیاؒ الہامِ غیبی کے مطابق روضہ مبارک تعمیر کرواچکے تو آپؒ نے بچشم باطن مشاہدہ کیا کہ ارواح مقدسہ کے جھرمٹ میں حضور سرور دو عالم ﷺ جلوہ افروز ہیں اور آپؒ کو ارشاد فرماتے ہیں"اے نظام الدین اولیا آپ با آوازِ بلند یہ کہہ دیں کہ جو کوئی اس دروازے سے گزرے گا امان پائے گا"۔ چنانچہ حضورﷺ کا یہ فرمان بہشتی دروازے پر ان الفاظ میں رقم ہے "من داخل ہذا لباب امن۔ ترجمہ: داخل ہوا جو اس دروازے سے اس نے امان پائی)۔

اس ارشاد کی تعمیل کرتے ہوئے حضرت نظام الدین اولیاؒ نے مسجد کے مینار پر چڑھ کر لوگوں کو توجہ دلانے کے لئے تین مرتبہ تالی بجائی اور یہ ارشاد پڑھ کر سنایا۔ آپ کے اس عمل کی پیروی کرتے ہوئے آج بھی بہشتی دروازہ کھولتے ہوئے تین مرتبہ تالی بجائی جاتی ہے۔

بابا فرید ملتان میں منہاج الدین کی مسجد میں زیر تعلیم تھے جہاں ان کی ملاقات جناب بختیار کاکی اوشی سے ہوئی اور وہ ان کی ارادت میں چلے گئے۔ اپنے مرشد کے حکم پر بین الاقوامی اور سماجی تعلیم کے لیے قندار اور دوسرے شہروں میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد دلی پہنچ گئے۔

گنج شکر، شکر گنج، بابا فرید، شہباز لامکاں، باباصاحب کے القابات سے آپ کو یاد کیا جاتا ہے۔ آپ نے قطب الاقطاب حضرت قطب الدین بختیار کاکی اوشیؒ کے دست حق پر بیعت کی جو خواجہ معین الدین چشتیؒ کے جانشین تھے۔

آپ کویہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ آپ کو بیک وقت آپ کے پیرو مرشد خواجہ قطب الدین بختیار کاکی سمیت سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتی المعروف خواجہ غریب نواز رحمتہ اللہ نے بیک وقت روحانی قوت عطا کی اس موقع پر سلطان الہند نے تاریخی الفاظ ادا کیے کہ قطب الدین تم ایک شہباز کو زیر دام لائے ہو جس کے بعد آپ کو شہباز لامکاں کا لقب عطا ہوا کہ جس کا ٹھکانہ کہیں نہیں صرف سدرۃ المنتہیٰ پر ہے۔

حضرت شیخ بہا الدین زکریا ملتانیؒ: آپ سہروردی سلسلے کے بزگ ہیں، ملتان میں مدفون ہوئے۔

بابا فرید الدین مسعود گنج شکر: صاحب عرس، آپ سے فریدی سلسلہ جاری ہوا، پاک پتن میں مدفون ہوئے۔

حضرت جلال الدین سرخ بخاریؒ: نام سے ہی ظاہر ہے، آپ جلالی کیفیت کے حامل تھے۔

حضرت عثمان بن مروندی المعروف حضرت لعل شہباز قلندرؒ: آپ چاروں دوستوں میں سب سے کم عمر تھے، سیہون میں آپ کا مزار مرجع الخلائق ہے۔

حضرت لعل شہباز قلندرؒ بابا فریدؒ کا بہت احترام کرتے تھے، آپ کے حکم پر لعل شہباز قلندرؒ بابا منگھوپیر بابا سے ملنے کراچی تشریف لائے اس وقت یہ جگہ غیر آباد تھی، آپ کا مسکن ندی کنارے تھے، لعل شہاز قلندر ندی سے آپ کے گھر تک مگرمچھ پر سفر کرکے گئے، بعدازاں آپ کے چند خلفا منگھوپیر بابا کی خدمت میں آئے تو آپ بھی اپنے پیرو مرشد شیخ لعل شہبازؒ کی تقلید مگر مچھ پر سواری کرکے گئے بعدازاں وہ سارے مگر مچھ منگھوپیربابا کے مزار پررہ گئے اور انہیں وہاں کے مجاوروں نے باقاعدہ خوراک دی، ان ہی مگرمچھوں کی نسل کے مگر مچھ آج تک مزار کے احاطے میں موجود ہیں۔

بابا فرید سے بہت سی کرامتیں پیش آئیں، ایک بار ایک عورت بیٹیوں کی شادی کی درخواست کے لیے آئی اور رونے لگی، آپ نے پتھر پر قل ھو اللہ احد پڑھ کر دم کیا تو وہ سونا بن گیا بعدازاں عورت بھی اپنے گھر میں یہ کرنے لگی لیکن پتھر پتھر ہی رہا اس نے آکر آپ سے کہا تو آپ نے تاریخی جملہ ادا کیا کہ اٹھارہ برس تک فرید نے وہ کیا جو خدا نے کہا اب فرید جو چاہتا ہے خدا اسے پورا کردیتا ہے۔

ایک بار دوران حمل آپ کی والدہ نے کچھ بیر توڑ کر کھائے تو طبیعت ایک خراب ہوئی، قے ہوئی اور سارا کھایا باہر آگیا، جب آپ بڑے ہوئے تو والدہ نے کہا کہ میں نے دوران حمل کبھی مشکوک شے معدے میں داخل نہ کی تب ہی تمہیں اتنی عظمت نصیب ہوئی تو بابا فرید نے کہا آپ کھا بھی لیتی تو میں کھانے کہاں دیتا تھا، آپ نے والدہ کو بیروں کا واقعہ یاد دلایا تو والدہ حیرت زدہ رہ گئیں۔

آپ کی کرامات بے شمار ہیں جنہیں مختصر وقت میں احاطہ تحریر میں لانا مشکل ہے۔

بہشتی دروازے سے گزرنے کا مطلب یہ نہیں کہ ہر قسم کا گناہ گار بے نمازی بھی اس سے گزرے تو جنتی ہے۔ اس دروازے سے گزر کر اس راستے کو اپنانا ہے جس کا حکم اللہﷻنے اپنے پیارے رسولﷺ کے زریعے ہمیں بتایا اور اس حکم کے تابع ہو کر بابا فرید نے اپنی زندگی گزاری اور اس راستے پر چلنے والا جب نماز کا پابند روزے کا پابند اور ہر اس نیک عمل کا پابند ہو جس سے اللہ کی خوشنودی حاصل ہو تو وہ انسان اللہ کے حکم سے جنت کا حقدار ہوگا۔

یہ ہے جنتی یا بہیشتی دروازے کا راز صرف دروازے سے گزر جانا آپ کو جنتی نہیں بناتا۔ اس دروزے سے گزر کر قرآن پاک کی تلاوت کو اپنا لینا بھی آپ کو جنت کے تک رسائی دیتا ہے۔ کیونکہ بابا فرید نے بھی ساری زندگی اسی راستے پر عمل کرکے گزاری تھی۔ قرآن و سنت کے زریعہ اسلام کو سمجھو گے تو زندگی آسان اور آخرت بھی۔ کم عقلی سے بدعت کو اپنا لیینا آنے والی نسلوں کو بھی غلط راستے کا انتخاب کروا دیتا ہے۔

Check Also

Asal Muslim

By Muhammad Umair Haidry