Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hussnain Nisar
  4. Baap Bete Ka Khamosh Rishta

Baap Bete Ka Khamosh Rishta

باپ بیٹے کا خاموش رشتہ

باپ اور بیٹے کا رشتہ وہ انوکھا بندھن ہے جسے دنیا نے ہمیشہ سمجھنے کی بجائے تراشا ہے، توڑا ہے، یا حدیں مقرر کر دی ہیں۔ یہ رشتہ فطری طور پر محبت، قربانی، فخر اور توقعات سے بھرپور ہوتا ہے، مگر زمانے نے اس کے بیچ خاموشی، سختی اور فاصلہ پیدا کر دیا ہے۔

جب بیٹا چھوٹا ہوتا ہے، تو وہ باپ کی انگلی تھام کر چلتا ہے۔ اس کی آنکھوں میں باپ سب سے بڑا ہیرو ہوتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کا باپ ہر وقت پاس ہو، اس کے ساتھ کھیلے، اسے گلے لگائے، اس سے کہانیاں سنائے۔ مگر باپ معاشی ذمہ داریوں میں الجھا ہوتا ہے۔ وہ بیٹے کی محبت کو صرف دیکھ کر جیتا ہے، محسوس کرکے نہیں جتاتا۔ بچہ بڑا ہوتا جاتا ہے اور دونوں کے درمیان جذبات کی ایک دیوار چپکے چپکے کھڑی ہو جاتی ہے، جس کی اینٹیں سماج، مصروفیت اور غیر ضروری شرمندگی سے بنی ہوتی ہیں۔

دنیا نے باپ کو مضبوط، بے حس اور صرف کمانے والا بنا کر پیش کیا ہے اور بیٹے کو جذبات سے بھرا، مگر ضدی اور خودسر۔ دونوں کے بیچ خالی جگہ کو کسی نے نہیں بھرا، بلکہ مزید وسعت دی۔ ماں اور بیٹی کا رشتہ تو بولتا ہے، مگر باپ اور بیٹے کا رشتہ اکثر خاموش رہتا ہے۔ وہ دونوں ایک دوسرے سے بے پناہ محبت کرتے ہیں، مگر کہہ نہیں پاتے۔

جب بیٹا اپنی زندگی کے فیصلے لینے لگتا ہے، تو باپ کا کردار ایک "احتساب کرنے والے" میں بدل دیا جاتا ہے۔ بیٹے کے خیالات میں اگر تبدیلی آ جائے، تو دنیا فوراً اسے "باپ سے بدتمیز" کہنے لگتی ہے اور باپ کو "سخت دل"۔ کوئی نہیں سمجھتا کہ دونوں صرف ایک دوسرے کی خوشی چاہتے ہیں، بس ان کے محبت جتانے کے طریقے مختلف ہوتے ہیں۔

باپ اپنی زندگی کی ساری محنت بیٹے کے لیے کرتا ہے، مگر یہ کہنے سے قاصر رہتا ہے کہ "مجھے تم پر فخر ہے"۔ بیٹا کامیاب ہو جائے تو باپ چھپ چھپ کر دوسروں کو بتاتا ہے، مگر خود بیٹے کے سامنے شرماتا ہے۔ بیٹا چاہتا ہے کہ اس کا باپ اس پر ہاتھ رکھے، اسے کہے کہ "تو میرا مان ہے"، مگر وہ ایسا کبھی سنتا نہیں اور محسوس کرتا رہتا ہے کہ شاید باپ خوش نہیں۔

اس بیچ دنیا کیا کرتی ہے؟ دنیا خاموشی کو غلط فہمی میں بدل دیتی ہے۔ رشتے کو "سخت رویے" کا لیبل دے دیتی ہے۔ گھر کے اندر بھی کئی بار وہ لوگ، وہ نظریات، وہ روایات آ جاتی ہیں جو باپ اور بیٹے کو ایک دوسرے سے دور کر دیتے ہیں۔ بیٹا ماں کے قریب ہوتا ہے، بہنوں کا ہمدرد ہوتا ہے، مگر باپ کے سامنے ناپ تول کے بولتا ہے۔ کیونکہ اسے یہی سکھایا گیا ہے کہ باپ سے فاصلہ رکھنا، ادب کہلاتا ہے اور باپ؟ وہ بھی کسی نے کبھی نہیں بتایا کہ بیٹے سے آنکھیں ملا کر کہنا کہ "میں تم سے محبت کرتا ہوں" کمزوری نہیں، اصل طاقت ہے۔

محبت تو ہوتی ہے، بہت زیادہ، مگر وہ کمرے کے در و دیوار سے ٹکرا کر واپس پلٹ جاتی ہے۔ باپ راتوں کو جاگ کر بیٹے کے لیے قرض لیتا ہے، چیزیں بیچتا ہے، خواہشیں دفن کرتا ہے اور بیٹا اپنے مستقبل کے لیے دن رات دوڑتا ہے، تاکہ باپ کو فخر ہو۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے سب کچھ کرتے ہیں، مگر ایک بار بھی بیٹھ کر دل کی بات نہیں کرتے۔

کاش! ہم ان خاموش قربانیوں کو محسوس کرنا سیکھیں۔ کاش! باپ اور بیٹے ایک دوسرے کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکیں: "مجھے تم سے محبت ہے"۔ دنیا کو یہ پیغام دینا ضروری ہے کہ باپ اور بیٹے کے بیچ سختی نہیں، صرف غیر سکھائی گئی شرم ہوتی ہے۔ ایک دیوار جو ہمیں توڑنی ہے۔

اگر بیٹے کو کبھی باپ کے دل تک پہنچنا ہے، تو صرف ایک قدم بڑھانے کی دیر ہے اور اگر باپ کو بیٹے کے دل میں جگہ بنانی ہے، تو صرف ایک جملہ کافی ہے: "میں تمہارے ساتھ ہوں، ہمیشہ! " دنیا جو فاصلہ ڈالتی ہے، وہ صرف بات چیت، سمجھداری اور احساس سے ختم ہو سکتا ہے۔

باپ اور بیٹے کے رشتے میں کبھی بھی دیر نہ کریں۔ کیونکہ وقت گزر جاتا ہے، مگر وہ ایک گلے نہ لگانا، ایک "محبت" نہ کہنا، ساری زندگی اندر چھبھن بن کر رہ جاتا ہے۔

Check Also

Bloom Taxonomy

By Imran Ismail