Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hussnain Nisar
  4. Abid Mughal, Awaz e Sahafat

Abid Mughal, Awaz e Sahafat

عابد مغل، آوازِ صحافت

اوکاڑہ کی صحافتی برادری ہمیشہ سے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں اور آزادیٔ صحافت کے لیے سرگرم عمل رہی ہے، مگر حالیہ دنوں میں ریجنل یونین آف جرنلسٹس (آر یو جے) پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل عابد حسین مغل کی قیادت میں جس طرح سے صحافیوں کے حقوق کے لیے ایک منظم، مربوط اور تاریخی جدوجہد جاری ہے، وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر نیت خالص ہو اور مقصد واضح ہو تو راستے خود بخود ہموار ہوتے چلے جاتے ہیں۔

عابد حسین مغل کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے صحافت کو صرف ایک پیشہ نہیں بلکہ ایک مقدس مشن سمجھ کر اس کی خدمت کی ہے۔ ان کی شخصیت میں قیادت کا جو جوش، تنظیم سازی کا جو تجربہ اور حق گوئی کا جو حوصلہ موجود ہے، وہ کم ہی لوگوں میں نظر آتا ہے۔ پاکستان بھر کے صحافی آج ایک مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔ میڈیا انڈسٹری میں بحران، صحافیوں کی تنخواہوں میں تاخیر، پریشر، آزادیٔ اظہار پر قدغنیں اور صحافیوں پر تشدد جیسے مسائل عام ہیں۔ ایسے میں صدر آر یو جے اور ان کے ساتھیوں نے جو "ٹرین مارچ" کا اعلان کیا ہے، وہ دراصل صحافیوں کے حقوق کے لیے ایک نئی اور تاریخی تحریک ہے۔ پشاور سے کراچی تک کا یہ سفر محض ایک علامتی مارچ نہیں بلکہ اس بات کی گواہی ہے کہ پاکستان کے کونے کونے سے تعلق رکھنے والے صحافی اپنے حقوق کے لیے متحد ہیں۔

عابد حسین مغل نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ قلم کی طاقت کو کبھی کمزور نہیں کیا جا سکتا اور اگر صحافی خود اپنے وقار کے تحفظ کے لیے اٹھ کھڑے ہوں تو کوئی بھی طاقت انہیں جھکا نہیں سکتی۔ اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے عابد حسین مغل ہمیشہ سے اپنی سچائی، نظریاتی وابستگی اور تنظیمی بصیرت کے باعث نمایاں رہے ہیں۔ انہوں نے آر یو جے کو ایک فعال اور باوقار پلیٹ فارم میں تبدیل کرنے کے لیے جس محنت اور دیانتداری سے کام کیا ہے، وہ قابلِ تعریف ہے۔ وہ نہ صرف مختلف شہروں میں آر یو جے کے ڈویژنل اجلاسوں میں شرکت کر رہے ہیں بلکہ خود جا کر صحافیوں کو اس تحریک کے مقاصد سے آگاہ کر رہے ہیں۔ ان کا مقصد صرف ایک مارچ کرانا نہیں بلکہ صحافتی برادری میں بیداری پیدا کرنا، اتحاد کو فروغ دینا اور ان کے درمیان ایک ایسا اعتماد بحال کرنا ہے جو پچھلے کچھ برسوں میں زائل ہوتا جا رہا تھا۔

عابد حسین مغل کی کوششوں سے آج آر یو جے پاکستان کے پلیٹ فارم سے سینکڑوں صحافی منظم ہو چکے ہیں۔ وہ یہ بات خوب جانتے ہیں کہ کسی بھی جدوجہد کو کامیاب بنانے کے لیے صرف بیانات کافی نہیں، بلکہ عملی قدم اٹھانے پڑتے ہیں۔ اسی سوچ کے تحت انہوں نے ٹرین مارچ کو ایک "تحریک" میں بدل دیا ہے۔ پشاور سے کراچی تک اس مارچ کا ہر اسٹاپ ایک علامت ہے اتحاد، مزاحمت اور صحافتی وقار کی بحالی کی علامت۔

اوکاڑہ میں ہونے والی تیاریوں نے ثابت کیا ہے کہ یہاں کے صحافی نہ صرف اس تحریک کے حامی ہیں بلکہ عملی طور پر اس کا حصہ بننے کے لیے پرعزم بھی ہیں۔ عابد حسین مغل کا یہ وژن کہ پاکستان کے تمام شہروں میں صحافیوں کے لیے ایک مضبوط نیٹ ورک قائم کیا جائے، دراصل مستقبل کی صحافت کے لیے بنیاد فراہم کر رہا ہے۔ ان کا یہ ماننا ہے کہ اگر صحافی خود اپنے مسائل کے حل کے لیے منظم نہیں ہوں گے، تو کوئی دوسرا آ کر ان کی جنگ نہیں لڑے گا۔ ان کی گفتگو میں ہمیشہ یہ پیغام جھلکتا ہے کہ آزادیٔ اظہار اور حق گوئی وہ نعمتیں ہیں جو قربانی مانگتی ہیں۔ وہ نوجوان صحافیوں کو بھی ہمیشہ یہ پیغام دیتے ہیں کہ وہ اپنی شناخت کو اداروں کے تابع نہ کریں بلکہ اداروں کو اپنی دیانت اور سچائی کے تابع کریں۔

اوکاڑہ کے مختلف صحافیوں کے مطابق، عابد حسین مغل کے آنے سے ایک نئی روح پیدا ہوئی ہے۔ ان کے اندازِ قیادت میں نرم گفتاری کے ساتھ ساتھ ایک غیر معمولی عزم بھی جھلکتا ہے۔ وہ نہ تو محض نعروں پر یقین رکھتے ہیں، نہ ہی وقتی شہرت کے خواہاں ہیں۔ ان کی پوری توجہ عملی اقدامات پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج آر یو جے کی مہم کو ملک بھر کے صحافتی حلقوں میں پذیرائی حاصل ہو رہی ہے۔ بڑے بڑے میڈیا ہاؤسز کے نمائندے بھی اس مارچ کو مثبت نظروں سے دیکھ رہے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ تحریک کسی ذاتی مفاد کے لیے نہیں بلکہ پورے طبقے کی بقا کے لیے ہے۔

عابد حسین مغل کا ایک نمایاں پہلو یہ بھی ہے کہ وہ ہمیشہ اختلافِ رائے کا احترام کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک صحافت کا حسن ہی یہی ہے کہ مختلف سوچ رکھنے والے لوگ ایک میز پر بیٹھ کر مکالمے کے ذریعے مسائل حل کریں۔ ان کی قیادت میں آر یو جے کے اجلاسوں میں ہمیشہ جمہوری ماحول رہتا ہے، جہاں ہر رکن کو بات کرنے، تجاویز دینے اور تنقید کرنے کی آزادی ہوتی ہے۔ یہی جمہوری رویہ ان کے تنظیمی وژن کی بنیاد ہے۔ ٹرین مارچ کی کامیابی کے لیے ان کی دن رات کی محنتیں سب کے سامنے ہیں۔ وہ خود ہر شہر میں جا کر انتظامات دیکھ رہے ہیں، صحافیوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں، مقامی پریس کلبوں کے عہدیداروں سے روابط بڑھا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ مارچ دراصل ایک آواز ہے، وہ آواز جو برسوں سے دبائی جا رہی تھی، مگر اب ملک کے ہر اسٹیشن سے گونجے گی۔ ان کی قیادت میں آر یو جے پاکستان نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اگر اتحاد ہو تو کوئی بھی رکاوٹ ناقابلِ عبور نہیں رہتی۔

آخر میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ عابد حسین مغل جیسے لوگ کسی بھی معاشرے کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ ان کی کوششیں صرف آج کے لیے نہیں بلکہ آنے والی نسل کے صحافیوں کے لیے ایک روشن راستہ فراہم کر رہی ہیں۔ وہ ہمیں یہ سبق دے رہے ہیں کہ سچائی، استقامت اور عزم کے ساتھ اگر کوئی مقصد حاصل کرنے نکلے تو کامیابی دیر سے سہی مگر ضرور ملتی ہے۔ ان کی یہ جدوجہد آنے والے وقت میں صحافت کی تاریخ کا ایک سنہرا باب ثابت ہوگی، جس میں لکھا جائے گا کہ ایک شخص نے اوکاڑہ سے شروع کیا اور پورے ملک کے صحافیوں کے دلوں میں امید کی نئی روشنی جگا دی۔

Check Also

Hum Mein Se Log

By Najam Wali Khan