Aamad e Rasool, Khishiyon Ka Pegham
آمدِ رسول ﷺ، خوشیوں کا پیغام

میلادِ مصطفیٰ ﷺ محض ایک جشن نہیں بلکہ ایمان کی تازگی، روح کی تسکین اور دلوں کے زنگ کو دور کرنے کا ایک عظیم ذریعہ ہے۔ یہ وہ دن ہے جس دن کائنات کے خالق نے اپنی سب سے بڑی نعمت، اپنی سب سے عظیم رحمت اور اپنے سب سے عظیم محبوب ﷺ کو دنیا میں مبعوث فرمایا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ظلمت کا پردہ چاک ہوا، اندھیروں میں روشنی پھیلی، جہالت کے سائے چھٹ گئے اور انسانیت کو ہدایت کی وہ شمع نصیب ہوئی جس کی روشنی تا قیامت مدھم نہیں ہوگی۔
میلاد النبی ﷺ کے موقع پر امت مسلمہ کا اجتماعی جذبہ اور والہانہ عقیدت اس حقیقت کی گواہی ہے کہ مصطفیٰ کریم ﷺ سے محبت دراصل ایمان کا بنیادی تقاضا ہے۔ حضور ﷺ کے آنے سے قبل دنیا کا حال یہ تھا کہ عرب کے لوگ اندھیروں میں ڈوبے ہوئے تھے۔ دختر کشی ایک عام رسم تھی، غلاموں کے ساتھ غیر انسانی سلوک ہوتا تھا، کمزوروں اور یتیموں کا کوئی سہارا نہ تھا۔ عورت کو ذلت و رسوائی کا نشان سمجھا جاتا تھا۔ لیکن جیسے ہی سرورِ کائنات ﷺ کی ولادت کی گھڑی آئی، دنیا کے نقشے بدل گئے۔
رحمتِ دو جہاں ﷺ کی آمد کے ساتھ ہی انسانیت کو عدل، مساوات، محبت، ہمدردی اور بھائی چارے کا پیغام ملا۔ آپ ﷺ نے اعلان فرمایا کہ کسی عربی کو عجمی پر، کسی گورے کو کالے پر کوئی فوقیت نہیں، اصل معیار تقویٰ ہے۔ یہ وہ انقلاب تھا جس نے دنیا کے سماجی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا۔ میلاد کا جشن دراصل اسی انقلاب، اسی روشنی اور اسی نعمت کا شکرانہ ہے۔
آج جب ہم پندرہ سویں جشنِ میلاد النبی ﷺ منارہے ہیں تو ہمیں اپنے دلوں میں یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم حضور ﷺ کی سیرت کے حقیقی پیروکار بنیں گے۔ چراغاں، محافل، نعت خوانی، درود و سلام کی صدائیں اپنی جگہ پر خوشی کا اظہار ہیں، لیکن اصل مقصد یہ ہے کہ ہم اپنی زندگیاں حضور ﷺ کی تعلیمات کے مطابق ڈھالیں۔
نبی کریم ﷺ کی شان بیان کرنا انسان کے بس میں نہیں۔ قرآن خود کہتا ہے: "وَرَفَعُنَا لَكَ ذِكُرَكَ" ہم نے آپ کے ذکر کو بلند کردیا۔
یعنی اللہ رب العزت نے اپنے محبوب ﷺ کے ذکر کو قیامت تک بلند کر دیا۔ دنیا کی کوئی طاقت نہ اسے مٹا سکتی ہے نہ روک سکتی ہے۔ آج دنیا کے کونے کونے میں اذان کے ذریعے آپ ﷺ کا نام گونج رہا ہے۔ ہر لمحہ لاکھوں زبانوں سے درود و سلام کی صدائیں بلند ہورہی ہیں۔ یہ آپ ﷺ کی شان ہے کہ جو بڑھتی ہی جارہی ہے اور قیامت تک قائم و دائم رہے گی۔
میلاد کا پیغام ہمیں یہ بھی دیتا ہے کہ ہم آپ ﷺ کی رحمت کو اپنائیں۔ قرآن نے حضور ﷺ کو "رحمة للعالمین" کہا۔ رحمت کا یہ مفہوم محض مسلمانوں تک محدود نہیں، بلکہ ساری کائنات کے لیے ہے۔ آپ ﷺ کا کردار دشمنوں کے ساتھ بھی رحمت، ہمدردی اور انصاف کا مظہر تھا۔ طائف میں جب پتھر مارے گئے تو آپ ﷺ نے ان کے لیے بددعا نہیں کی بلکہ دعا کی کہ یہ لوگ ہدایت پالیں۔ یہ وہ اسوہ ہے جس کی یاد میلاد کے دن تازہ ہوتی ہے۔
جشنِ میلاد النبی ﷺ کی محفلیں ہمارے دلوں کو روشنی عطا کرتی ہیں۔ ان محفلوں میں درود و سلام کی صدائیں، نعتوں کی مٹھاس اور سیرت کی روشنی ہمارے دل و دماغ کو منور کرتی ہے۔ یہ محافل صرف جذباتی وابستگی کا اظہار نہیں بلکہ اصلاحِ احوال کا ذریعہ بھی ہیں۔ جب ایک مسلمان سچے دل سے حضور ﷺ کا ذکر سنتا ہے تو اس کا دل بدلنے لگتا ہے، گناہوں کی کثافت دور ہوتی ہے اور نیکی کی طلب جاگ اٹھتی ہے۔ یہی اصل مقصد ہے میلاد کا۔
آج کے دور میں، جہاں امت انتشار کا شکار ہے، میلاد ہمیں اتحاد و یکجہتی کا سبق دیتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "المؤمن للمؤمن كالبنيان يشد بعضه بعضا"، یعنی مسلمان آپس میں ایک دیوار کی مانند ہیں جس کی ایک اینٹ دوسری کو سہارا دیتی ہے۔
میلاد کے اجتماعات ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ہم ایک دوسرے کے بھائی ہیں، ہمیں تفرقے کو ختم کرکے امت واحدہ بننا ہے۔
حضور ﷺ کی شان یہ ہے کہ آپ اللہ کے محبوب ہیں، کائنات کی سب سے پہلی تخلیق ہیں اور سب سے آخری نبی ہیں۔ اللہ نے آپ ﷺ کو خاتم النبیین بنایا اور یہ اعلان فرما دیا کہ اب قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا۔ اس لیے میلاد النبی ﷺ کی خوشی محض ایک سالانہ تقریب نہیں بلکہ ایمان کی تجدید کا ایک ذریعہ ہے۔
اگر ہم واقعی میلاد کے پیروکار ہیں تو ہمیں حضور ﷺ کی تعلیمات کو اپنی زندگی میں عملی جامہ پہنانا ہوگا۔ ہمیں جھوٹ، فریب، رشوت، ظلم اور ناانصافی سے توبہ کرنا ہوگی۔ ہمیں غریبوں، یتیموں اور بے سہارا لوگوں کی خدمت کو اپنی زندگی کا مقصد بنانا ہوگا۔ یہ سب کچھ تبھی ممکن ہے جب ہم میلاد کو محض ایک رسم نہیں بلکہ ایک پیغام سمجھیں۔
میلاد کی خوشی مناتے وقت ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ حضور ﷺ کی ولادت انسانیت کے لیے سب سے بڑی خوشخبری تھی۔ آپ ﷺ کی ذات وہ سورج ہے جس نے جہالت کے اندھیروں کو مٹایا۔ آج کے جدید دور میں جب سائنسی ترقی نے انسان کو غرور میں مبتلا کردیا ہے، میلاد ہمیں عاجزی، اخلاق اور خدا کی بندگی کی طرف بلاتا ہے۔
ہر سال میلاد کے موقع پر ہمیں ایک نئی روحانی توانائی ملتی ہے۔ یہ دن ہمیں ہمارے مقصدِ حیات کی یاد دہانی کراتا ہے۔ یہ پیغام دیتا ہے کہ اگر کامیابی چاہتے ہو تو حضور ﷺ کے نقشِ قدم پر چلو۔ آپ ﷺ نے خود فرمایا: "تركت فيكم أمرين، لن تضلوا ما تمسكتم بهما: كتاب الله وسنتي" یعنی میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، جب تک انہیں تھامے رہو گے کبھی گمراہ نہ ہوگے: اللہ کی کتاب اور میری سنت۔
جشنِ میلاد النبی ﷺ کی اصل روح یہی ہے کہ ہم قرآن و سنت کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں۔ ہماری عبادت، ہماری معیشت، ہماری سیاست، ہمارا معاشرتی نظام سب کچھ حضور ﷺ کی تعلیمات کے مطابق ہونا چاہیے۔ یہی اصل خوشی ہے میلاد کی۔
آج پندرہ سو برس گزر جانے کے باوجود میلاد کی روشنی ویسی ہی تازہ ہے جیسی اس دن تھی جب حضور ﷺ دنیا میں تشریف لائے تھے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ ﷺ کی شان لازوال ہے اور آپ ﷺ کی محبت دلوں سے کبھی ختم نہیں ہوسکتی۔
میلاد النبی ﷺ منانے والے خوش نصیب ہیں کیونکہ وہ اس دن کو یاد کرتے ہیں جب کائنات کا سب سے حسین، سب سے برگزیدہ اور سب سے پیارا چہرہ دنیا میں جلوہ گر ہوا۔ اس دن کو منانا دراصل اللہ کی اس نعمت پر شکر ادا کرنا ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔
ہمیں چاہیے کہ میلاد کے اس موقع پر اپنے گھروں کو بھی سیرت النبی ﷺ کا مظہر بنائیں۔ والدین اپنی اولاد کو حضور ﷺ کی سیرت سنائیں، تعلیمی ادارے میلاد کے پیغام کو عام کریں، میڈیا اور صحافت حضور ﷺ کی رحمت کو پھیلانے کا ذریعہ بنے۔ یہی اصل جشن ہوگا میلاد کا اور یہی اصل اظہارِ محبت ہوگا رسول اللہ ﷺ سے۔

