Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hussnain Nisar
  4. 18 Zilhaj

18 Zilhaj

18 ذوالحجہ

حضرت عثمان غنیؓ کی زندگی قربانی، سخاوت، حیاء اور حلم کی ایک روشن مثال ہے۔ آپ نبی کریم ﷺ کے ان خاص صحابہ میں شامل تھے جنہیں دنیا میں ہی جنت کی بشارت دی گئی۔ آپ کا شمار پہلے لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اسلام قبول کیا اور اسلام کے لیے اپنی جان، مال، عزت اور وقت سب کچھ وقف کر دیا۔ حضرت عثمانؓ کا خاندانی پس منظر قریش کے معزز قبیلے بنو امیہ سے تھا اور زمانہ جاہلیت میں بھی آپ اپنی دیانت دار تجارت اور نرم مزاجی کے لیے جانے جاتے تھے۔ نبی کریم ﷺ کی دو صاحبزادیاں آپ کے نکاح میں آئیں۔ اسی وجہ سے آپ کو "ذوالنورین" کا لقب ملا۔ یہ اعزاز کسی اور کو حاصل نہیں۔ آپ نے اپنی دولت کو دین کی راہ میں بے دریغ خرچ کیا۔

جب مکہ مکرمہ میں مسلمانوں کو پانی کی شدید قلت کا سامنا تھا اور ایک یہودی "بئر رومہ" نامی کنویں سے بھاری معاوضے پر پانی فروخت کرتا تھا، تو حضرت عثمانؓ نے وہ کنواں خرید کر عام مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا۔ یہ وہ کارنامہ تھا جو رہتی دنیا تک سخاوت کی ایک بے مثال علامت بن گیا۔ مدینہ منورہ کے قیام کے دوران، آپ نے کئی مرتبہ اسلامی فوج اور محتاجوں کی مالی مدد کی، یہاں تک کہ غزوہ تبوک کے موقع پر ہزار اونٹ، ستر گھوڑے اور بے شمار سونا و چاندی اللہ کی راہ میں پیش کیا۔ نبی کریم ﷺ نے اس پر خوش ہو کر فرمایا: "عثمان کے بعد جو چاہے عمل کرے، آج کے بعد عثمان کو کوئی نقصان نہیں"۔

آپ کی خلافت تقریباً بارہ سال تک جاری رہی، جس میں اسلامی ریاست کی حدود وسیع ہوئیں، ایران، شام، افریقہ اور دیگر علاقوں میں اسلام کا پیغام پہنچا۔ آپ نے قرآن مجید کے رسم الخط کو یکساں کرنے کا عظیم کارنامہ انجام دیا تاکہ امت اختلاف کا شکار نہ ہو۔ آپ نے مختلف شہروں کو مصاحف روانہ کیے اور قاری مقرر کیے تاکہ دین کی اصل تعلیم برقرار رہے۔

مگر وقت کے ساتھ ساتھ بعض فتنہ پرور عناصر، جنہیں منافقین کی سرپرستی حاصل تھی، ریاست کے خلاف سازشیں کرنے لگے۔ ان شرپسندوں نے حضرت عثمانؓ کی نرمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگوں کے دلوں میں بغاوت کے بیج بوئے۔ آپ نے ہمیشہ امن و رواداری کا راستہ اختیار کیا اور کبھی سختی سے کام نہ لیا۔ آپ کا اصول تھا کہ امت کے خلاف تلوار نہیں اٹھانی، چاہے اس کی قیمت جان ہی کیوں نہ ہو۔

آخرکار 18 ذوالحجہ کا وہ المناک دن آیا، جب فتنہ پروروں نے مدینہ منورہ کا محاصرہ کرکے آپ کے گھر کا پانی بند کر دیا۔ باوجود اس کے کہ رسول اللہ ﷺ کے شہر میں تھے، آپ کو پیاسا رکھا گیا۔ آپ روزے کی حالت میں قرآن پاک کی تلاوت کر رہے تھے کہ ان باغیوں نے آپ پر حملہ کر دیا اور بے دردی سے شہید کر دیا۔ آپ کی شہادت کا منظر انتہائی دل خراش تھا۔ آپ کا خون قرآن مجید پر گرا اور گویا آپ کی جان اللہ کی کتاب کے تحفظ کے لیے قربان ہوئی۔ بعد ازاں آپ کو رات کے وقت، خاموشی سے، جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔ وہی جنت البقیع، جسے رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کی آخری آرام گاہ بنایا تھا، حضرت عثمانؓ کی سادگی اور عاجزی کی یاد دلاتی ہے۔

آپ کی شہادت سے اسلامی دنیا میں ایک طوفان برپا ہوا اور یہ واقعہ بعد کی بہت سی سیاسی اور فکری تقسیمات کا آغاز ثابت ہوا۔ مگر آپ کی ذات رہتی دنیا تک قربانی، حلم، سخاوت اور وفاداری کی بلند مثال کے طور پر زندہ رہے گی۔ حضرت عثمان غنیؓ کا ہر عمل اس بات کا گواہ ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی رضا کے لیے جیتے اور اسی راہ میں جان دے دی۔

Check Also

Mian Muhammad Baksh (19)

By Muhammad Sarfaraz