Siasi Shatranj Aur Akhri Chaal
سیاسی شطرنج اور آخری چال
مشرق سے وجود میں آنے والا کھیل شطرنج واحد ایسا کھیل ہے جس کے موجد کو اس شہکار تخلیق پر بادشاہ کی جانب سے انعام میں سزائے موت کی سزا سننے کو ملی تھی۔ خیر بادشاہ تو یہ کھیل نہ سمجھ سکا اور ناسمجھی میں اس نے اس کے موجد سیسا کا سر قلم کروا دیا۔ لیکن سیسا کی یہ قربانی رائیگاں نہیں گئی اور یہ کھیل صرف مشرق ہی نہیں بلکہ مغرب اور تمام دنیا تک پھیل گیا۔ اب تک اس میں کافی رد و بدل بھی ہوچکا ہے۔ ہر علاقے میں اس کھیل کو اپنے انداز سے کھیلا جاتا ہے۔
لیکن یہ کھیل سیاسی حوالے سے بھی بہت مشہور ہے۔ کیونکہ اکثر بادشاہ نا صرف اس کھیل کو کھیلا کرتے تھے، بلکہ اس کے مقابلے بھی منعقد کروایا کرتے تھے۔ اس کھیل کی اہمیت کا اندازہ یہاں سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اکثر اوقات وزراء اور سیاسی لیڈران اپنے بیانات میں سیاسی چال کو شطرنج کی چال سے تشبیہ دیتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ دراصل سیاست اور شطرنج میں قدر مشترک الفاظ کا استعمال ہوتا ہے۔ جس میں بادشاہ، مہرہ، وزیر، بساط، چال وغیرہ شامل ہیں۔ یہاں تک لفظ شاطر جو ہم عقلمند کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ یہ شطرنج کھیلنے والے کو کہا جاتا تھا۔ لیکن آج اس لفظ شاطر کا عام استعمال دیکھنے کو ملتا ہے۔
خیر ہمارے ملک پاکستان میں بھی سیاسی شطرنج کے بہت شاطر کھلاڑی موجود ہیں۔ جو کہ اس کھیل پر مکمل عبور رکھتے ہیں۔ نیز اس کھیل میں جب بھی کوئی چال چلتے ہیں تو بہت سوچ سمجھ کر چلتے ہیں۔ کیونکہ آپ کی ایک چال کھیل کا پاسا بدل دیتی ہے۔ لہٰذا حالیہ تناظر میں دیکھیں تو سیاسی شطرنج کا میدان خاصا گرم ہوگیا ہے۔
تمام کھلاڑی مل کر ایک کھلاڑی کے مقابلے پر اتر آئے ہیں۔ اگرچہ یہ کھلاڑی اکیلا اور ابھی ناسمجھ ہے۔ لیکن کھیل بنانے والوں نے اس کے ہاتھ میں اہم مہرے تھما دیے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ پر اعتماد ہے۔ لیکن ابھی آخری چال چلنا باقی ہے۔ جس سے عین ممکن ہے کہ کھیل کا پاسا بدل جائے اور پرانے تمام کھلاڑی اس نئے کھلاڑی کو مات دے دیں۔ کیونکہ کئی چالیں تو کھیل بنانے والوں کی بھی بساط سے باہر ہوتی ہیں۔ کھیل کا حاصل مخالف بادشاہ کو زیر کرنا ہے۔ لیکن یہاں تو بادشاہ پیادوں کی مدد سے بنائی ہوئی حفاظتی دیوار میں محفوظ کھڑا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ پرانے کھلاڑیوں کی آخری چال بھی اس حصار کو توڑ نہیں پائے گی جو کہ مخالف بادشاہ کو گرنے سے بچائے ہوئے ہے۔
اصل میں یہ امکان بھی موجود ہے کہ پرانے کھلاڑیوں میں پھوٹ ہی نہ پر جائے۔ کیونکہ ان تمام پرانے کھلاڑیوں میں زر دار نامی ایک کھلاڑی بہت ہی شاطر ہے۔ اس کو کھیل میں ہار یا جیت سے کوئی تعلق نہیں، وہ تو بس اپنا مفاد دیکھتا ہے۔ نیز وہ اپنی آخری چال اس طرح سب کے سامنے عیاں بھی نہیں کرتا ہے۔ جیسا کہ باقی موجودہ کھلاڑی کر رہے ہیں۔ وہ تو مفاہمت کا بادشاہ ہے۔ اور مفاہمت ہی اس کا طریقہ واردات ہے۔ اس نے تو یہاں تک کہ اپنے ساتھی کھلاڑی کی ملکہ کے مقابلے میں ہی اپنی ملکہ لا کھڑی کی ہے۔ کیونکہ اس کو ایسا لگ رہا ہے کہ ساتھی کھلاڑی کی ملکہ کہیں اکیلے ہی یہ کھیل ختم نہ کردے۔ اس لئے میدان میں اس نے اپنی ملکہ بھی کھڑی کردی ہے۔ خیر ہم بات کر رہے ہیں (زر دار) نامی کھلاڑی کی جو کہ اس کھیل کو ہمیشہ اپنے انداز سے کھیلتا ہے۔ نیز اگر اس کو فتح نظر نہ بھی آرہی ہو تو وہ مفاہمت کرکے کچھ نہ کچھ حاصل کر لیتا ہے۔ لیکن خالی ہاتھ کبھی بھی واپس نہیں جاتا ہے۔ اس دفعہ بھی کہیں یہ اپنے ساتھی کھلاڑیوں سے آخری چال چلوا کر خود کھیل سے راہ فرار اختیار نہ کرلے۔ کیونکہ سیاسی شطرنج کے میدان میں ہر امکان موجود رہتا ہے۔
لیکن دوسری جانب جو ساتھی کھلاڑی ہیں وہ بہت سخت اور ضدی مزاج کے ہیں۔ ان کے نزدیک کھیل کا حاصل صرف فتح ہے۔ یعنی کہ مخالف بادشاہ کو یا تو زیر کرنا یا پھر اس کو زیر ہونے پر مجبور کرنا۔ موجودہ سیاسی شطرنج کے کھیل میں یہ کھلاڑی بادشاہ کو زیر کرنے کے لئے آخری حد تک چلے گئے ہیں۔ نیز اب بس آخری چال کھیلنا باقی ہے، جس سے کھیل کا فیصلہ ہو سکتا ہے۔ یہ ساتھی کھلاڑی جو کہ (م، ن) کے نام سے مشہور ہیں۔ انھوں نے اپنی آخری چال عیاں کردی ہے۔ یہ سوچتے ہوئے کہ بادشاہ اس چال کو دیکھ کر ہار مان جائے گا۔ لیکن ابھی تک ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔ خیر اصل فیصلہ تو اس آخری چال کے چلنے سے ہوگا۔
دسمبر کے مہینے میں لگتا ہے کہ یہ آخری چال چل دی جائے گی۔ یعنی آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ آخری چال ایسی کیا چال ہے جس سے کھیل کا فیصلہ ہوگا۔ یہ آخری چال در اصل یا تو اسمبلیوں سے استعفے ہوں گے۔ یا پھر دھرنا جس کا حاصل حکومت کا استعفیٰ ہوگا۔ لیکن جہاں تک خاکسار کو نظر آرہا ہے۔ حکومت تو استعفے نہیں دے رہی۔ البتہ اپوزیشن جماعتوں نے اسمبلیوں سے استعفے دینے کے حوالے سے فیصلہ کرلیا ہے۔ شائد یہ ہی ان کی آخری چال بھی ثابت ہو۔ اس بات سے قطع نظر کہ اس چال کا حکومت پر کیا اثر پڑے گا۔ بہر حال اس کھیل کی تپش نے ماحول گرما سا دیا ہے۔ کئی حلقوں کے اندر تو بے چینی بھی پائی جاتی ہے۔ یہ وہ حلقے ہوتے ہیں جو کہ چاہتے ہیں کہ ملک میں انتشار کی سیاست نہ ہو، اور نہ ہی یہ دھرنے وغیرہ۔ ان کے نزدیک ملک کی سالمیت اور استحکام اولین ترجیح ہے۔ کیونکہ یہی چیزیں ملکی ترقی کا راز ہوتی ہیں۔ لیکن اب یہ کھیل اپنے آخری مراحل میں داخل ہوگیا ہے۔ اس کھیل کو دیکھنے کے لئے شوقین مداح بھی گھروں سے باہر نکل آئے ہیں۔
اس کھیل میں دونوں جانب سے کھلاڑیوں کو شائقین کی سپورٹ حاصل ہے۔ لیکن ہر دفعہ شائقین صرف شور مچا کر چلے جاتے ہیں۔ جب کہ ان کو بھی نتیجے کا علم نہیں ہوتا ہے۔ وہ تو بس اس کھیل سے محظوظ ہو رہے ہوتے ہیں۔ جب کہ اس دوران کھیل بنانے والے ہی کھیل کا فیصلہ سناتے ہیں۔ سیاسی شطرنج کا یہ کھیل میری اور آپ کی سمجھ سے باہر ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب اس کھیل کی منظر کشی کی ہے جو کہ ہمارے وطن عزیز میں کھیلا جاتا ہے۔ کیونکہ یہاں بعض اوقات فیصلہ چال کھیل کر نہیں بلکہ کھیل بنانے والوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ در اصل کھیل بنانے والوں کو ہر چال کا علم ہوتا ہے۔ اس لئے شاعر بھی اس کھیل کی نزاکت کو نا سمجھتے ہوئے لکھتا ہے کہ
اسی کے سارے پیادے، اسی کے شاہ و وزیر
بساطِ زیست پہ شہرہ اسی کی چال کا ہے