Meem Se Mafahmat Ya Mazahmat?
میم سے مفاہمت یا مزاحمت؟
گزشتہ کچھ دنوں سے سیاسی میدان میں مفاہمت کی بازگشت سنائی دی جارہی ہے۔ در اصل مفاہمت کی یہ گونج خادم اعلیٰ اور برادر اصغر شہباز شریف کی رہائی کے بعد سے سننے کو مل رہی ہے۔ جس تیزی میں شہباز شریف کی ضمانت منظور ہوئی اور پھر اسی دن ملک سے باہر جانے کی درخواست بھی سماعت کے قابل ہوگئی۔ بقول پیپلزپارٹی کے کچھ سینئر رہنماؤں کے یہ سب بند کمرے میں مفاہمت کا شاخسانہ لگتا ہے۔ خیر حکومت نے اس مفاہمت کے خلاف کچھ مزاحمت بھی کی جس کی وجہ سے چھوٹے میاں صاحب آج پاکستان میں قیام پذیر ہیں۔ عام تاثر تو یہ جاتا ہے کہ مفاہمت کا داغ دھونے کے لئے یہ مزاحمت کی گئی ہے۔
کیونکہ سپریم کورٹ میں حکومت کے فیصلے کے خلاف چھوٹے میاں صاحب نے اپنی درخواست واپس لے لی تھی اور یہ دیکھتے ہوئے حکومت نے بھی اپنی درخواست واپس لے لی۔ خیر یہ تو غیر معمولی بات ہے کہ عدالت میں ایک کیس کی سماعت منظور ہو اور پھر دونوں فریقین اس کیس سے پیچھے ہٹ جائیں۔ تاہم یہی محسوس ہوتا ہے کہ چھوٹے میاں صاحب کو سیاسی پیش قدمی کے حوالے سے کچھ تسلی دی گئی ہے۔ اسی لئے تو برادر اصغر برادر اکبر میاں نواز شریف کے پاؤں پکڑنے کے لئے لندن جانا چاہ رہے تھے۔ تا کہ مفاہمت کی بدولت جو تسلی ان کو ملی ہے، بڑے بھائی اور ان کی انقلابی دختر کہیں اس میں رخنہ نہ ڈال دیں۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سکرپٹ میم سے منسلک ہے۔ کیونکہ مسلم لیگ نواز میں دو قسم کے مزاج ہیں۔ ایک گروپ کا مزاج مفاہمت کو ترجیح دیتا ہے۔ دراصل یہ گروپ شہباز شریف کو خفیہ طور پر سپورٹ کرتا ہے۔ لیکن اس گروپ کا ووٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ جبکہ دوسری طرف پارٹی کی نائب چیئرمین دختر انقلاب ہیں جن کا نام میم سے بنتا ہے پر وہ میم سے مزاحمت کی بات کرتی ہوئی پائی جاتی ہیں۔ نیز یہ کہ ان کا گروپ بھی مزاحمتی سیاست کا حامی ہے۔ اور یہ گروپ مزاحمت سے ہوکر مفاہمت کی ٹیبل پر آنے کی بات کرتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس گروپ کا عام آدمی سے تعلق شین گروپ سے زیادہ اچھا ہے۔ مطلب ان کے پاس ووٹ بھی موجود ہیں۔
لیکن یہاں جو چیز میاں شہباز شریف دیکھ رہے ہیں وہاں کسی کی نظر نہیں جارہی یا پھر کوئی نظر ڈالنا نہیں چاہتا۔ بزدار حکومت جو کہ بیساکھیوں پر قائم ہے۔ جس میں سے جہانگیر ترین گروپ جدا ہوگیا ہے۔ یہ وہی جہانگیر ترین تھے جنہوں نے پنجاب میں حکومت کے لئے بہت تگ و دو کی تھی۔ جن کی وجہ سے اور جن کے جہاز پر آزاد امیدوار توڑ کر لائے گئے تھے۔ خیر بعدازاں جہانگیر ترین بھی باقی سرمایہ داروں کی طرح اپنے مفاد کے لئے حکومت کا حصہ بنے اور بعد میں چینی اسکینڈل میں ملوث ہونے کے بعد اپنے جہاز میں سوار تمام بکاؤ امیدواروں کو جمع کرکے ایک گروپ بنانے میں کامیاب بھی ہوگئے۔ بیشک یہ گروپ عمران خان کو سپورٹ کرتا رہے گا۔ لیکن یہ واضح ہے کہ اس گروپ کو کسی مقصد سے علیحدہ کیا گیا ہے۔ یہی نہیں ساتھ کچھ اور ممبران نے بھی آزاد گروپ کا نام دے کر اپنے مطالبات عمران حکومت کے سامنے رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہاں ایک بات بزدار سرکار کے لئے خطرے کا باعث ہے کہ یہ دونوں گروپ جو کہ بزدار سرکار سے نالاں نظر آتے ہیں۔ کیا یہ بزدار حکومت کے لئے خطرے کا باعث بن سکتے ہیں؟ اس کا جواب یہی ہے کہ جب تک عمران خان کی سپورٹ بزدار کے ساتھ ہے، تب تک ان کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ہاں اگر تادم دیر آید درست اگر خان صاحب اپنا فیصلہ بدلتے ہیں تو یہی گروپ بزدار حکومت توڑنے کا سبب بن سکتا ہے۔
نیز حیران کن بات یہ ہے کہ پنجاب میں اتنا سب کچھ ہونے کے ساتھ ساتھ تین سال بعد چوہدری نثار بھی ایوان میں آگئے ہیں۔ جو کہ شہباز شریف کے دیرینہ ساتھی بھی سمجھے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں دال میں کچھ کالا ہونے کے شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ خیر جو بھی ہو ایک بات تو ہے پنجاب کی گدی کے لئے کیسے کیسے جتن اور کتنی گہری نظر رکھی جاتی ہے یہ ہمیں حالیہ دنوں میں نظر آیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ سب شکوک و شبہات حقیقت کا رخ بھی اختیار کریں گے یا پھر یہ صرف ہماری خام خیالی تک محدود رہے گا۔ کیونکہ یہاں جو پلیننگ اور سوچ کارفرما رکھی جارہی ہے چھوٹے میاں صاحب کی طرف سے وہ یہ ہے کہ اگلے الیکشن تک مفاہمت کی سیاست کرکے جایا جائے اور اداروں کے سربراہان کے یوں سربازار نام نہ لیے جائیں۔ لیکن میم سے مفاہمت یا مزاحمت یہ سب تو مسلم لیگ نون پر منحصر ہے۔ خیر پیپلزپارٹی بھی مفاہمت کی پالیسی اختیار کیے شہباز شریف کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ کیونکہ وہ بھی سندھ حکومت کو ہاتھ سے جانے نہیں دے سکتی۔ لہٰذا سیاست کے میدان میں میم کے لئے اس وقت کچھ نہیں ہے۔ اس لئے وہ مزاحمت کا راستہ ہی اختیار کرے گی۔