Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Humayon Qaim Khani
  4. Yahan Ke Rahe Na Wahan Ke

Yahan Ke Rahe Na Wahan Ke

یہاں کے رہے نہ وہاں کے

تعلیمی نظام میں جدت کے پیشِ نظر نظام میں انگریزی کو اہم مقام دے دیا گیا۔ فقط تعلیم ہی نہیں بلکہ ہماری قومی زبان اردو ہونے کے باوجود ہمارے ملک میں انگریزی کو جو مقام حاصل ہے وہ تو اردو کو بھی نہیں، اردو کو تو بس قومی زبان ہم نے معلوماتِ عامہ کے سوالوں کے جواب کے لیے رکھ لیا۔ باقی ہمارے ادارے انگریزی پر ہی کام کر رہے ہیں اور اس شدت سے کر رہے ہیں کہ ہم سے اردو بھی جاتی جا رہی ہے بلکہ نئی نسل سے تو زیادہ تر جا چکی۔

ہمارے معاشرے میں انگریزی زبان کو ذہانت کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ جس شخص کو انگریزی آتی ہے اسے بہت پڑھا لکھا تصور کیا جاتا ہے۔ انگریزی میڈیم کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے۔ پھر چاہے انگریزی کے چکر میں ہم ہماری قومی زبان بھی نا سیکھ اور صحیح سے بول پائیں۔

افسوس ہوتا ہے جب ہمارے ملک کا شہری ہماری قومی زبان کے الفاظ کا غلط تلفظ پڑھتا ہے۔ ہمارے تعلیمی ادارے انگریزی کو پڑھا تو رہے ہیں اردو پر فوقیت بھی دے رہے ہیں لیکن افسوس کے ساتھ ہمارے بچے انگریزی بھی صحیح سے نہیں سیکھ پا رہے، کیسے سیکھیں گے دوسروں کی زبانیں جب خود کی زبان ہی نہیں آتی بلکل اسی طرح جس جج سے اپنے گھر کے فیصلے نہیں لیے جاتے وہ کورٹ میں کیسے اچھے فیصلے کر پائے گا۔ دوسروں کی طرف قدم بڑھانے سے پہلے خود کو مکمل کر لینا زیادہ بہتر ہے نا کہ خود کی زبان سیکھی نہیں دوسروں کی زبان سیکھنے لگ گئے۔ ایسے میں پھر یہی کہانی ہورہی ہے کہ

نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے

رہے دل میں ہمارے یہ رنج و الم نہ ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے

اچھی بات ہے انگریزی کا فروغ ہمارے ملک میں ہونا چاہیے بلکہ دیگر زبانوں کا بھی فروغ ہونا چاہیے یہ بھی ایک مہارت ہے۔ لیکن پہلے خود کی زبان پر ہمیں عبور حاصل کرنا ہوگا۔

ہمیں یہ عملی طور پر ماننا ہوگا کہ ہماری قومی زبان اردو ہے پہلے ہمیں اس پر عبور حاصل کرنا چاہیے پھر دوسری زبانوں کو سیکھنا ہوگا۔ اب ہوتا کیا ہے انگریزی ہم پڑھ تو رہے ہیں لیکن کیا یہ انگریزی زبان کہیں باہر ہماری شناخت کا سبب بنے گی؟ بلکل نہیں دنیا میں زبان کے لحاظ سے ہماری قومیت کی عکاسی کرنے والی زبان اور کوئی نہیں بلکہ ہماری قومی زبان اردو ہوگی، دنیا جب ہمیں اردو بولتے سنے گی تو کہی گی کہ پاکستانی ہے اور اسی کے بر عکس باہر کبھی کسی نے آپ کو انگریزی بولتے ہوئے سنا تو وہ فوراً یہی سوچے گا کہ یہ انگریز ہے۔ تو پھر کیا فائدہ ایسی زبان کا جو ہم سے ہماری قومیت چھین لے۔

انگریزی بین الاقوامی زبان ہے اور اس کی اہمیت سے انکار بھی ممکن نہیں ہمیں سب کو آنی چاہیے لیکن ہمیں اپنی شناخت کو نہیں بھولنا چاہیے۔ ہمارا پڑوسی ملک چائینہ ہم سے ترقی میں زیادہ آگے ہے وہ انگریزی کے پیچھے ہماری طرح نہیں بھاگتے اور ان کے وزیراعظم جب کہیں دوسرے ملک دورے پر جاتے ہیں تو وہ اپنی قومی زبان چائینیز میں بات کرتے ہیں، یہ ان کا اپنا ایک معیار ہے وہ خود اپنی، اپنی قوم کی قیمت بڑھا رہے ہیں۔

پاکستان میں انگریزی کے بجائے اردو کا نفاذ ہونا چاہیے تاکہ ہم ہماری زبان حقیقی معنوں میں بول اور سیکھ سکیں۔ دنیا کے سامنے جب ہم اپنی زبان کی اہمیت کو اجاگر نہیں کریں گے تو دنیا کیسے ہمیں سنجیدہ لے گی۔ قومیں خود کی ذاتی زبان سے پہچانی جاتی ہیں اور اردو زبان ہی ہماری پہچان ہے۔

Check Also

Aik Sach

By Kashaf Mughal