Mashriq e Wusta Aur Pakistan
مشرقِ وسطیٰ اور پاکستان
متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا۔ مسلم ممالک کا نیا اتحاد بن رہا ہے، جسکا ایک نظارہ ملیشیا کانفرنس میں بھی نظر آتا ہے۔ عرب لیگ کی برتری ختم ہورہی ہے۔ ایسے میں سارے مستکبر ایک ہی صف پہ جمع ہورہے۔
یو اے ای کے بعد دو بڑے عرب ممالک کا اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں ہورہی ہیں، بن سلمان ممکنہ بادشاہ ہے سعودیہ کا۔ پیچھے بڑا ملک یہی ہے۔ بحرین، عمان وغیرہ اسکے مقلد ہیں۔ امارات کا تسلیم کرنا ایک دو رُخی چال ہے۔ کیونکہ ان دنوں پاک سعودیہ کشیدگی بہت بڑھ چکی ہے۔ انڈیا اور اسرائیل کی آپس میں بنتی ہے۔ اور سعودیہ و انڈیا کی قربتیں بڑھ رہی ہیں، یوں انڈیا و سعودیہ و اسرائیل ایک پیج پر! جبکہ امریکہ کا ان تینوں پر اثر و رسوخ ہے۔
موجودہ حکومت کو سعودیہ کی جانب سے ملنے والا تین سو ارب ڈالر سے زائد ملنے والے قرضے میں سے سعودیہ نے ایک عرب مانگا، پاکستان نے چین سے لے کر دے دیا۔ دوسری طرف چائنہ و پاکستان کی قربتیں ماضی کی نسبت بہت اعلی سطح پہ ہیں۔ ایسے میں سی پیک سے ہوتے ہوئے چین چابہار تک سرمایہ کاری کررہا ہے اور ایران نے یکطرفہ فیصلہ کرتے ہوئے انڈیا کو چابہار پراجیکٹ سے بےدخل کردیا ہے۔ ایران و سعودیہ کی آپس میں کشیدگی، چین و امریکہ کی، انڈیا و پاکستان کی، ایران سے امریکہ و اسرائیل کی دشمنی، یہ واضح محرکات ہیں کہ جن کے باعث نئے بلاک تشکیل پارہے ہیں۔
ایسے میں یہ باز گشت بھی ہے کہ مسلم دنیا کی سرپرستی کیلئے پاکستان کو لایا جارہا ہے اور یہ چین کا ہی منصوبہ ہے کہ جیسے امریکہ و پاکستان سمیت افریقہ تک سے نکال باہر کیا ہے ویسے ہی مشرقِ وسطیٰ سے بھی نکالا جائے۔
جیسا کہ سعودیہ اور امریکہ کی بنتی ہے۔ جبکہ چین اور پاکستان کی۔ سی پیک میں پاکستان نے سعودیہ کو لانا چاہا تو تحفظات اٹھے۔ مگر چین ایران کی عباس نامی بندرگاہ تک شروع سے ہی رسائی کا خواہ رہا ہے۔ گزشتہ ماہ میں چین نے ایران سے بڑا معائدہ کیا ہے۔ چین مشرقِ وسطیٰ میں سعودیہ کا متبادل چاہتا ہے۔ ایران، پاکستان اور ترکی یہ آپشنز ہیں۔ جبکہ پاکستان سے بڑھ کر آپشن نہیں انکے پاس۔ ملیشیا سمٹ میں پی ایم یا وزیرِ خارجہ نہ گیا مگر پاک کا وفد ضرور گیا تھا۔ پاک نے سعودیہ کے ساتھ وہی گیم کی ہے جس کے وہ لائق تھا۔
مسلم دنیا میں عجمیوں کو سرپرستی ملنے کو ہے۔ دوسری طرف عالمی سطح میں اس خطے میں روس، ایران، چین اور پاکستان کا الائنس بن چکا ہے۔ اس کے علاوہ ترکی بھی امریکہ و سعودیہ کو کھٹک رہا ہے۔ کیونکہ لوزان کا معائدہ ختم ہونے کو ہے اور ترکی بھی اُڑان کو پُر پھیلا رہا ہے۔ شام و لیبیا میں اس کی مداخلت یکطرفہ پریشانی نہیں۔ اگر ایرانی مفادات کو نقصان پہنچتا ہے تو یہ امریکہ و سعودیہ کیلئے برابر کی پریشانی ہے۔
بعض دوست اعتراض کریں کہ سعودیہ کے مقابلے میں پاکستان کیسے متبادل بن سکتا ہے جبکہ سعودیہ کے پاس اتنے وسائل ہیں اور پاکستان قرضوں کے بوجھ تلے دبا کمزور معیشت کا حامل ملک تو عرض ہے کہ میں نے کہا متبادل میں تین آپشن ہیں۔
ترکی، ایران، پاکستان! جبکہ چین کی نگاہ میں پاکستان بڑا آپشن ہے۔ کیونکہ چین و پاکستان کی قربت زیادہ ہے۔ دوسرا امریکہ و اسرائیل کا پالتو کتا بھارت ان دونوں کا مشترکہ دشمن ہے۔ امریکہ کی کوشش رہی تھی کہ بھارت کو اس خطے کی تھانےداری دے۔ پر پاکستان و چین نے افغانستان و بلوچستان سے بھارت کے نیٹ ورک کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔
رہی وسائل کی بات تو چین کے اپنے تیل کے زخائر نہیں۔ وہ بھی خریدتا ہے۔ ون بیلٹ ون روڈ اس نے اپنی تجارت اور آنے والے تیل کے جہازوں کی حفاظت کیلئے ہے۔ کیونکہ اسکی مشرقی ساحلوں پہ اختلافات چل رہے۔ اور اس میں فیلپائن و ویتنام ودیگر جزائر شامل ہیں۔ حتیٰ کہ امریکی جنگی بیڑے بھی موجود ہیں۔ ایسے میں سری لنکا کی بندرگاہ کو لیز پر لے کر فوجی اڈہ بنانا اہم سٹریٹجک پلان ہے۔ دوسری مصنوعی جزیرے بنا کر وہاں اپنے لڑاکا طیارے کھڑے کررہا۔ افریقہ سے امریکی اجارہ داری ختم کری۔ 5G کی جنگ میں بہت کچھ ہورہا۔ گوگل پہ آج بھی تھرڈ ورلڈ وار کے تزکرے ہیں۔ جانی بہت کچھ ہورہا ہے۔
لبنانی مسلح جھادی تنظیم حزب اللہ کے اہم عہدےدار نے حالیہ دنوں میں پاکستان کا نام لے کر کہا کہ کشمیر پہ ہم پاکستان کے ساتھ ہیں۔ حزب اللہ خالصا ایرانی حمایت یافتہ ہے جس کو بڑے پیمانے پر ایران امداد فراہم کرتا ہے، ساتھ جنگی ساز و سامان بھی۔ نیز سعودیہ کا پڑوس میں بیٹھا مخالف ملک قطر بھی امداد فراہم کرتا ہے اور قطر کے ساتھ اختلافات اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ محمد بن سلمان قطری سرحدوں پر سلویٰ کینال کھدوا رہا ہے کہ قطر سے زمینی فاصلہ اختیار کیا جائے اور سعودیہ و قطر کا بارڈر بھی کافی عرصے سے ہر اعتبار سے بند ہے۔ ایسے میں ہر حوالے سے گیم ہورہی ہے۔
موجودہ دنوں میں پاکستان کے آرمی چیف بھی سعودیہ عرب کے سرکاری دورے پر جا چکے ہیں۔ بعض حلقوں کی جانب سے ظاہر کیا جارہا ہے کہ پاکستان روایتی طریقت کو اپناتے ہوئے سعودیہ کے گھٹنے جا لگے گا۔ پر یہ تاثر تعجب خیز ہے۔ کیونکہ پاکستان کی موجودہ روش اس بات کی گواہ ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں بہت بدلاؤ آرہا ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی تہتر سالہ تاریخ کی نسبت اس بار یکسر مختلف نظر آرہی ہے۔ سعودیہ کو جو حضرات وسائل کے اعتبار سے ہاتھی تسلیم کرتے ہیں تو عرض ہے کہ اوپیک ممالک کے ہاتھی کے دانت ٹوٹتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ کیونکہ اوپیک کے علاوہ دوسرے کئی ممالک تیل کے زخائر دریافت کرچکے ہیں اور عالمی منڈی میں فروخت بھی کررہے۔
ساتھ ہی مسلم ممالک کی افواج کا اتحاد بنا کر متزلزل اور کمزور ملک یمن پر مسلط کردہ جنگ میں بری طرح شکست اس بات کی شاہد ہے کہ سعودیہ کتنا مضبوط ملک ہے؟ ماضی کے اوراق سے واضح ہے کہ ہر موڑ پر آلِ سعود کی بادشاہت پاکستانی فورسز کے ہاتھوں محفوظ رہی ہے۔ محمد بن سلمان کی بطور ولی عہد نامزدگی کے بات خاندانِ آلِ سعود میں بڑھنے والے اختلافات ایک بڑا مسئلہ ہے۔ بن سلمان پر اب تک کئی قاتلانہ حملے ہوچکے ہیں۔ ایسے میں صاف ظاہر ہے کہ سعودیہ میں خانہ جنگی - سول وار شروع ہونے کے بڑے چانسز ہیں، اور یہ تب بہت جلدی ہونگے جب مسلم ممالک کے بلاک الگ ہونگے۔ اور اس میں بڑا ہاتھ امریکہ کا بھی ہوگا۔ البتہ ایسے میں ترکی اور ایران بھی پیچھے نہ رہیں گے۔ ایران اپنے حامیان کو تعاون فراہم کرے گا جبکہ ترکی خلافتِ عثمانیہ کے نام پر اپنے پنجے گاڑھے گا۔
اب سعودیہ کے پاس ایک کارڈ اور بھی ہے، اور وہ ہے "مقدسات" کا۔ یہ ایسا کارڈ ہے جو سعودیہ ایران و یمن کے خلاف استعمال کرتا آیا ہے اور میڈیا کے پروپیگنڈہ سے عالمِ اسلام میں شیعہ سنی منافرت عروج کو پہنچی۔ سب سے زیادہ نقصان ملکِ پاکستان کا ہوا۔ ہزاروں جانیں گئیں۔ لاکھوں بچے یتیم ہوئے۔ حتیٰ کہ سعودی و ایرانی لابیز تک بن گئیں۔ مگر! اب کی بار صورتِ حال مختلف ہے۔ کیونکہ اب سعودی بلاک کے مقابل ترکی بھی ہے۔ اور ترکی نے نشر و اشاعت و ثقافت میں انقلابی تبدیلیاں کرکے کے دنیا میں ارتغرل غازی کے زریعے بڑا کام کیا ہے۔ مذہبی کارڈ سے سعودیہ اپنا ہی نقصان کرے گا۔ کیا پتا آلِ سعود اپنے مفادات کیلئے عَالَمِ اسلام کو شیعہ سنی کی تفریق کے بعد اہلِ سنت کو ہی تقسیم کر ڈالے!