Wednesday, 15 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Hasnain Haider/
  4. Maroozat e Karbala (3)

Maroozat e Karbala (3)

معروضاتِ کربلا (3)

امام علی علیہ السلام قطعا اسلامی ریاست یا اسلامی معاشرے کا شیرازہ نہ بکھرتا دیکھ سکتے تھے نہ ایسے کسی امر میں شریک ہوسکتے تھے۔ آپ شیخین کے ادوار میں انتہائی صبر و تحمل اور تدبر سے امور کی دیکھ بھال کرتے رہے۔ آپ کے یہ ادوار انتہائی زیرک اور مصلحت کے ساتھ گزارے۔ حضرت عمر کے وصال کے بعد جب شوریٰ بیٹھی تو آپ اس میں شریک ہوئے، یہ نہ تھا کہ آپ علیہ السلام کسی ضمن میں شرکت نہ کرتے کہ معیار کا مسئلہ درپیش ہوتا کہ کہاں شوریٰ اور کہاں علی ع؟ شوریٰ وجود میں آ گئی کہ چھ افراد امام علی، طلحہ و زبیر، عبد الرحمن بن عوف اور جنابِ عثمان، یہ افراد بیٹھ کر کسی ایک کو خلیفہ مقرر کرسکیں۔

امام علی اپنا اور جنابِ زبیر کا ووٹ رکھتے تھے جبکہ جنابِ عثمان اپنا اور جنابِ طلحہ کا۔ اور حضرت عبد الرحمن بن عوف اپنا اور حضرت سعد بن ابی وقاص کا ووٹ رکھتے، جناب عبد الرحمن کے ووٹ کو فیصلہ کن حیثیت حاصل تھی۔ اور انہوں نے قرآن و سنت کے بعد سنتِ شیخین پہ عمل پیرا ہونے کی شرط عائد کی جسے امام علیہ السلام نے رد کیا کہ میں قرآن و سنت اور اپنا اجتہاد کرونگا۔ جبکہ حضرت عثمان نے شرط تسلیم کرلی اور خلیفہ بن گئے!

حضرت عثمان کے بارہ سالوں میں بہت سے واقعات رونما ہوئے۔ اور جناب کیلئے وبالِ جاں ثابت ہونے والے افراد میں انکا اپنا ہم قبیلہ و رشتہ دار مروان بن حکم ثابت ہوا۔ یہ وہ شخص ہے جو امت کیلئے بھی اور خود حضرت عثمان کیلئے بہت سے مسائل کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ ایسے میں حضرت علی ع نے بہت سے موقعوں پہ جناب کو مشاورت سے سمجھایا اور بہت سے مسائل سے نکلنے کیلئے راہِ حل دیا۔ مگر تکفیریت کا غلبہ تھا۔

کچھ باتیں یا معاملات ایسے بھی تھے جو حضرت عثمان بذاتِ خود انجام دے رہے تھے اور اصحاب ان سے نالاں ہوئے۔ اہم بات حضرت ابوزر غفاری ؓ کو مدینہ بدر کرنا بھی ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے اصحاب سے معمولی اختلافات روز مرہ کی بات بن گئے۔ جو امت ثقیفہ کے باعث طبقات میں تقسیم ہوئی، وہ بنیاد تن آور درخت بنتے جارہے تھے۔ جنابِ عثمان کی خلافت کے بارہ سالوں کے آواخر میں مسائل شدید پچیدہ ہوگئے اور دور دراز کے علاقوں کے لوگوں کو تحفظات ہوئے جن میں مصر و عراق و بصرہ کی تعداد نمایاں و واضح ہے۔

انہوں نے جنابِ عثمان کے گھر کا محاصرہ کرلیا اور انکی جان کے درپے ہوگئے۔ جنابِ امیر علیہ السلام نے خوب کردار ادا کیا اور مسائل تقریبا نمٹا لئے اور لوگ واپس جارہے تھے مگر مروان بن حکم نے چال چلی اور اس سے محاصرہ کرنے والے اصحاب پلٹ آئے اور اب کی بار خون خرابہ ہوا بھی۔ اور اس اثنا میں جنابِ عثمان قتل کردیئے گئے۔ امام علی ع آخری حد تک امت کی اصلاح اور مرکزِ اسلامی کے تحفظ کیلئے پیش پیش تھے کہ اپنے بچوں حسنین کریمین ع کو جناب عثمان کے گھر کی حفاظت پر مامور کردیا۔ یہاں ایک نکتہ جو آگے چل کر پیش کیا جائے گا۔

بعد از عثمان لوگ دوڑے چلے آئے اور آپ کا ہاتھ طلب کرنے لگے کہ بیعت کریں مگر آپ ع نے فرمایا کہ 'دعونی و التمسوا غیری' "اے لوگو! مجھے چھوڑ دو اور کسی دوسرے کو تلاش کرو!" مگر لوگوں نے اب اصرار شدید کردیا اور مسند اقتدار پر کسی اور کو دیکھنا ہی نہیں چاہتے تھے!

Check Also

Bilawal Bhutto Ki Baaten To Durust Hain Magar?

By Haider Javed Syed