Jang Qareeb Tar Hai
جنگ قریب تر ہے
امریکی انتخابات ہوچکے، ہر طرف سے چیخ و پکار کہ چونکہ اب نیا بندہ آیا ہے تو پالیسی میں بھی بدلاؤ آئے گا۔ مگر بعض حلقوں سے شور اٹھا کہ ایسا قطعاً نہیں، امریکہ میں صدور بدلتے ہیں پالیسیاں نہیں! امریکی انتخابات میں چاہے کوئی ہارے یا جیتے، اس سب کا ایک محرک ضرور ہوتا ہے، اور وہ ہے صیہونی لابی۔۔۔ صیہونیت کیا ہے؟ صیہونی وہ گروہ ہے جو مخصوص نظریات کی بنا پر وجود میں آئے۔ سب سے پہلے فری میسنز کہلائے مزید نظریاتی و سیاسی ارتقا کے بعد نشونما پاتے پاتے ایلومیناٹی جیسی مضبوط تنظیم بنے پھر اسرائیل کی صورت میں قابض ریاست (تشکیل دی)۔
آج دنیا میں کہیں بھی بےامنی و بےسکونی ہے تو اسکے پیچھے صیہونیت کے کسی سطح کے کوئی نا کوئی عزائم کارفرما ضرور ہوتے ہیں۔ آج صیہونیت کا سب سے بڑا ہدف نیو ورلڈ آرڈر کا قیام جس میں خاصے کامیاب بھی ہوچکے ہیں اور دجال کی آمد کیلئے زمین سازی۔ اس زمین سازی میں صیہونیوں نے ہر طرح کے وسائل نچھاور کر ڈالے ہیں۔ کہیں بالواسطہ جنگیں لڑی ہیں تو کہیں جنگیں کروائی ہیں۔ کبھی ریاستوں کی کمزوری کیلئے القاعدہ و داعش تشکیل دی ہیں تو کہیں امن کے پرچار میں غیر فطری ایجنڈہ پیش کیا ہے۔
صیہونیوں کی ریاست مشرقِ وُسطیٰ کے ملک فلسطینی سرزمینوں پہ ہے۔ مشرقِ وسطیٰ عالمی سیاست میں ہمیشہ ہی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ آج دنیا کے وسائل یا انسانی ایجادات کو چلانے کیلئے تیل کے وسیع زخائر اسی خطے میں ہیں۔ انہیں تک رسائی و قبضے کیلئے شام و عراق میں داعش اتاری گئی اور عراق کو توڑنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ پھر یہ ہوتا کہ وہاں داعش کی عارضی حکومت قائم ہوتی جسے بعدازاں نیٹو کے زریعے ختم کیا جاتا اور وہاں جمہوری حکومت کے نام پر صیہونی حکومت قائم ہوتی جوکہ گریٹر اسرائیل کیلئے ایک منصوبہ ہے۔ جیسا کہ یہی کام افغان جنگ میں سویت یونین کے توڑنے کے وقت سعودیہ و امریکہ امداد پر القاعدہ کو قائم کیا گیا بعد ازاں انکی حکومت بن جانے کے بعد ڈرامائی طریقے سے نائن الیون کے بہانے انہیں طالبان کے ساتھ جنگ شروع کی گئی۔
اس منصوبے کی تکمیل میں صفِ اول کے مسلم ممالک اسرائیل کو سوائے پاکستان و ایران تسلیم کرچکے ہیں۔ عرب لیگ کے تقریباً تمام ممالک اسرائیل کو قبول کر چکے ہیں، حالیہ عرصے میں نیتن یاہو نے سعودیہ کا خفیہ دورہ کرتے ہوئے ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات بھی کی ہے۔ گزشتہ ایام میں مراکش نے بھی اسرائیل کو تسلیم کرلیا جبکہ بیان دیا کہ "مسئلہ فلسطین کے حل کے حامی ہیں!" جب آپ اپنی غیرت بیچ ڈالیں تو ایسی باتیں کرتے ہوئے شرم و جھجھک باقی نہیں رہتی اور حل جو چاہیں گے وہ صدی کی ڈیل (The Deal Of Century) کی قبولیت و اطلاق ہوگا دوسرا آپشن آپ کے پاس ہے بھی نہیں اور نہ ہی دیا جائے گا۔
امسال مشرقِ وُسطیٰ اور دنیا میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ کئی اتحادی ٹوٹے، کئی بنے۔ خطے میں تبدیلیوں اور مفادات کی غرض سے پاکستان نے ایران سے تعلقات بہتر بنائے جوکہ سعودیہ کو ناگوار گزرے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودیہ نے دوسری طرف بھارت سے تعلقات کو نیا موڑ دیا۔ جیسا کہ یو اے ای و سعودیہ کی طرف سے مودی کو دی جانے والی عزت، او آئی سی اجلاسوں میں بلانا وغیرہ یعنی یہ تبدیلیاں کافی عرصے سے رونما ہورہی تھیں۔ سعودیہ کے اسرائیل سے تعلقات استوار کرنے کی بڑی وجہ ایران مخالفت ہے۔ اور اسکا بڑا و اہم اتحادی پاکستان ایران کو اہمیت دے رہا۔ ایسے میں وہ پاکستان و ایران دونوں کے دشمنوں سے تعلق بنا رہے۔ اس میں چین کا بھی ایک خاص کردار ہے، چین اپنا ون بیلٹ ون روڈ پایہ تکمیل کو پہچانا چاہتا ہے اور ہر رکاوٹ کو دور اور ہر خطرے کا سدِباب چاہتا ہے، اس چینی منصوبے کیلئے سب سے اہم گزرگاہ پاکستان ہے اور واحد راستہ شمالی علاقہ جات ہیں مثلا گلگت بلتستان۔ چونکہ گلگت بلتستان مسئلہ کشمیر میں متصل ہے تو یہ عالمی فورم پہ بھی تشویش بنا رہا دوسرا بھارت کی طرف سے کسی بڑے حملے کا یقینی خدشہ بھی لئے ہوئے۔ ایسے میں یہ بلاک (روس، چین، پاکستان، ایران، ترکی) کمر کس چکا ہے اور حریفوں سے دوبدو ہونے کو آمادہ ہے۔
پاکستان و چین کی اہم ترین کوششوں میں سے بھارت میں خالصتان تحریک و دیگر مسائل میں سٹیٹ کو الجھا کر کشمیر پر آنے والے ماہ میں حملہ کرتے ہوئے کشمیر کو آزاد کروا لینا مقصود ہے تاکہ سی پیک کا تحفظ یقینی ہو اور مسئلہ کشمیر سے ہمیشہ کیلئے جان چھوٹ جائے۔ دوسری طرف مشرقِ وسطیٰ میں جہاں امریکہ نے فوجی اڈے بنا رکھے، ایران کے خلاف گھیرا تنگ کرتا چلا جارہا تھا، چند ماہ قبل خبر پڑھنے کو ملی تھی کہ روس نے اپنا جدید ترین میزائل سسٹم ایران میں اپنی بیس بناتے ہوئے سیٹ کیا ہے۔ یعنی جنگ کیلئے مقدمات مکمل کئے جارہے ہیں۔ حال ہی میں اسرائیلی ایجنسیز نے ایران کے جوہری پروگرام کے سربراہ کو جان بحق کر ڈالا تھا، جس کے بعد اصولی طور پر انتقام کے بیانیئے جاری ہوئے۔ جس کے بعد اسرائیل میں ہائی الرٹ جاری کردیا گیا ہے۔ اور ممکنہ حملوں میں سے اسرائیل پر حزب اللہ بھی حملہ کرسکتی ہے۔
رہی اس سب میں ترکی کے کردار کی بات تو ترکی بدلتے ہوئے حالات میں خود کو ڈھالے گا۔ اور یہ ہمیشہ سے اسکی روش رہی ہے۔ اسرائیل مخالف بیان تو دیا جاتا ہے مگر تجارت ختم نہیں کی جاتی، سفارت خانے بند نہیں کئے جاتے، اسرائیلی سفیر کو بےدخل نہیں کیا جاتا۔ حتیٰ کہ اسرائیل کے دورے تک کئے جاتے ہیں۔ جبکہ شام و عراق میں اسرائیل و امریکہ کی حمایت یافتہ و بطور ٹیسٹ کیس کام کرنے وای بدنامِ زمانہ تنظیم داعش کے خلاف آنے کے، اور اس کے خلاف لڑے والے روس و شام و ایران کا ساتھ دینے کے، ترکی نے اپنی فوجیں اسی اتحاد کے خلاف اتاریں اور داعش کے قبضے کے بعد تجارت بھی کی۔ ترکی کو مہار ڈالنے کیلئے ایک اور انتظام بھی کررکھا گیا ہے کہ اسے مسئلہ قبرص میں الجھا رکھا گیا ہے۔ اور اس کے دو حصے ہیں تو درمیان میں بفر زون قائم کی گئی ہے جہاں اقوامِ متحدہ کی افواج موجود ہیں دوسرا یونانی قبرص کی جانب برطانیہ نے اپنی ائیر بیسز بنا رکھی ہیں جن میں سے ایک اسرائیل کی طرف ہے۔ اور یہ اسرائیلی تحفظ کیلئے فعال ترین مورچہ ہے۔
رہی پاکستان کی اسرائیل تسلیم کرنے کی بات تو پاکستان میں اس حوالے سے دو طبقات ہیں، ایک چاہتے ہیں کہ اسرائیل کو تسلیم کیا جائے جوکہ قلیل ہیں اور خود کو روشن خیال ظاہر کرتے، حقیقت پسند گردانتے ہیں جبکہ دوسرا طبقہ اکثریت کا ہے اور اسرائیل مخالف جذبات رکھتا ہے۔ اس لئے پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت جمہور کی امنگوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے پالیسز بنا کر چل رہی ہے۔