Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hasnain Haider
  4. Faqat Do Ashaar

Faqat Do Ashaar

فقط دو اشعار

گزشتے چند ماہ میں الیکٹرانک میڈیا سے لے کر سوشل میڈیا اور اخبارات کی زینت ایک شخص کی پرتاثیر و شاندار نظم تھی۔ جی ہاں! میں بات کررہا ہوں افکار علوی کی اور آپ کی نظم بعنوان "مرشد" کی۔ جیسا کہ نام ہے افکار، یعنی فکر و فلسفہ کا منبع۔ ایک پڑھا لکھا مگر سادہ لوح انسان معاشرے کی الفاظ کی صورت میں کچھ اس طرح عکاسی کرتا ہے کہ من مو لیتا ہے۔

آخر ہمارے معاشرے میں کیا ہے کہ لوگ عکاسی کرنے میں مجبور ہیں؟ لوگ اپنی اپنی بساط کے مطابق عکاسی کئے پھرتے ہیں؟ جیسا کہ آپ نے سنا ہوگا کہ انسانی کردار میں کچھ مکارم ہوتے ہیں تو کچھ رذائل۔۔۔ پس ہمارے معاشرے میں بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ آج ہمارا معاشرا مکارم کا نمائندہ کم اور رذائل سے بھرپور ہے۔ رذائل کیا ہیں؟ نوعیت کے اعتبار سے اسکی صورتیں مختلف ہوتی ہیں۔ دہشت گردی، فرقہ واریت، تعصب و شدت پسندی اس معاشرے کے بڑے رذائل ہیں۔ اس کے علاوہ ذیلی سطحوں پہ بےشمار رذائل ہیں جو ان سے بھی خطرناک حد اختیار کرجاتے ہیں، جیسا کہ شخصیت پرستی اور اندھی تقلید۔۔۔ جبکہ ان سب کے حل کیلئے ایک ہی شے کافی ہو اور وہ ہے "احساس۔" جوکہ اس معاشرے میں بہت ہی نایاب ہے۔ احساس ہوگا تو ہم برداشت کرنا سیکھیں گے۔ حالات و واقعات بھی یہی تقاضہ کرتے ہیں۔

کل نیوز چینلز میں ایک خبر سنی کہ فلاں فلاں صوبائی حکومتوں نے فوج طلب کرلی ہے۔ یوں تو افکار کی نظم کو پہلے بھی کئی زاویوں سے دیکھا، بنا یہ جانے کہ افکار کی اپنی فکر کیا ہے؟ پر حالات کی نزاکت کے مطابق دو اشعار بڑے خوبصورت ہیں۔

شعر نمبر 1

مرشد ہمارے دیس میں ایک جنگ چھڑ گئی،

مرشد سبھی شریف شرافت سے مر گئے!

بلاشبہ موجودہ آفت کسی جنگ سے کم نہیں۔ سننے میں تو آیا کہ یہ بائیولوجیکل جنگ کا حصہ ہے۔ مگر ہمارے معاشرے میں ایک نفسیاتی جنگ چھڑی ہے۔ ہمارے ملک کی زیادہ تر آبادی غریب ہے، ذریعہ آمدن محنت مزدوری ہے۔

اس وبا سے جنگ چھڑی کہ اب جس نے جتنا لوٹنا ہے لوٹے۔ یہ فقط اب کی بات نہیں، تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ نازک مواقعوں پہ ہمارے منھوں سے رال ٹپکتی ہے۔ یوں تو ملک کے تاجر و دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ معزز و شریف ہیں۔ شرافت کی نشانیاں یہ کہ ہر دکان پہ بسم اللہ، الحمد، مکہ و مدینہ اور نجف سے لےکر محمدیہ تک کے نام و عنوان سے شٹر رنگین ہیں۔ مگر شرافت کا دم گُھٹتا چلا جاتا ہے۔ وہ جو ہاتھوں میں تسبیح اور اسوہ رسول ﷺ اور اسلام کے اصولوں کے بھاشن دیتے ہیں، جب کوئی غریب در پہ آتا ہے تو سرائیکی میں جملہ بولا جاتا ہے کہ "نَک کَپ گِھندے ہِن" یعنی ناک کاٹ لیتے ہیں۔ ایک دیہاڑی دار مزدور جو فکرِ معاش میں بھی ہو اور گھر میں چار بیٹیوں کی رخصتی کا سامان بھی پورا کرنا ہو، جب دو وقت کی روٹی کیلئے کچھ خریدتا ہے تو سوغات کا وزن کچھ اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ کمر جھک جاتی ہے۔

کئی حقیقی داستانیں ہیں، 2010 کے سیلاب کے وقت چار چار افراد کا گروہ بنتا اور جاکر سرکاری تحویل میں ایک جاکر بھینس دیکھتا اور باقی ماندہ علامات بتا کر ہتھیا لیتے، میعارِ شرافت بس یہی بچ گیا ہے۔ کسی ادیب نے کہا تھا کہ مرد دامن پہ لگا داغ چھپانے کیلئے داڑھی رکھ لیتا ہے۔ کچھ ایسا ہی ہے۔

شعر نمبر 2

مرشد ہماری فوج کیا لڑتی حریف سے؟

مرشد اسے تو ہم سے ہی فرصت نہیں ملی!

ریاستِ پاکستان کے ستونوں میں ایک اہم ستون افواجِ پاکستان ہیں۔ قیامِ پاکستان سے لےکر اب تک ہماری افواج کی قربانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ جنگ کے میدانوں سے لے کر تھل و چولستان کے ریگستانوں اور سیلاب کے طوفانوں تک، اس نے بہت سی خدمات انجام دی ہیں، اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ اب تک دشمن ملک کے خلاف تین خون ریز جنگیں اور اندرونی دشمن دہشتگردوں کے خلاف کئی آپریشنز کرچکی ہے، جن میں ہزاروں قیمتوں جانوں کا نزرانہ پیش کیا ہے۔ مگر ماضی کے قصے ماضی کی کتاب میں خوبصورت ہیں۔ آج اگر حالات دیکھیں تو ہماری فوج کیا لڑے؟ دشمن سے کشمیر و سیاچن آزاد کروائے یا ریاست کے قوانین کو پٹڑی پہ لائے؟ بحیثیتِ قوم ہمارا المیہ یہ کہ اب اگر حالات خراب ہیں تو بجائے نظم و ضبط کے مظاہرے کے، ہم نے غیر زمہ داری کا مظاہرہ کیا۔ مجبورا انتظامیہ کو فوج طلب کرنی پڑی۔ ہماری مثال بھی اس اونٹ کی ہے کہ جس کی رسی تھامے رکھو تو درست سمت میں چلتا ہے اگر رسی چھوڑ دو تو ادھر ادھر دوڑ لگا دے۔ اور ہم ستر سالوں سے یہی کرتے ہیں آئیں۔ درحقیقت ہمیں ہمارے واعظین نے سدھایا ہی نہیں۔ ہمیں سکھایا ہی نہیں۔ ہم معاشرتی حیوان تو ہیں پر آدابِ معاشرت سے لاعلم۔

پھر کیونکر نہ فوج الجھے ہمارے معاملات میں؟ معاشرتی و سیاسی و مذہبی، ہم کس شعبے میں درست ہیں؟ سیاست ہماری آلودہ، مذہب میں ہم شدت پسند و فرقہ پرست۔۔۔ چند ماہ پہلے آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کا بل مجلسِ قانون ساز نے متفقہ طور پر منظور کیا۔ مگر اعتراضات کی گولہ باری نے انسانی ازہان کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔ مگر ہمارے شعور نے ہمیں مجبور تک نہ کیا کہ آخر یہ سب کیا تھا؟ حضور آرمی چیف کی مدتِ ملازمت تین برس ہے۔ مگر یہ پاکستان کے آئین یا آئین کے تناظر میں کسی قانون میں نہیں۔ یہ ایک نظیر تھی جو ستر سالوں سے چلی آرہی تھی۔ اب کی بار قانونی شکل بھی ملی اور موجودہ سربراہ کو وسعتِ مدت بھی۔

ہم میں عمومی طور پہ شعور کی کمی ہے۔ سیاسی و معاشرتی شعور تو ذیل کی باتیں ہیں۔ ہمارے لئے کارل مارکس کا طرز طبقات اہمیت رکھتا ہوگا پر کسی انسان کی معنوی اہمیت نہیں۔ یقینا یہ قوم سنبھل جائے گی، سیکھ جائے گی، سمجھ جائے گی، آنکھیں کھل جائیں گی، مگر کب؟ جب ہر گھر سے جنازہ اٹھے گا۔ مگر دفنانے والے بھی سرکاری ہونگے۔ کندھے دینے کو کوئی اپنا نہ ہوگا۔

کسی کو کھونے کا درد کیا ہوتا ہے؟ کسی ایسی عورت سے پوچھیں جو نو ماہ حاملہ رہی ہو پر بچے کو ولادت دے اور دنیا میں اس کا بچہ آتے ہی فوت ہوجائے!!! کیا آپ کرب کو محسوس کرسکتے ہیں؟

Check Also

Aik Sach

By Kashaf Mughal