Pardesi Ki Zindagi, Khwabon Ki Qeemat
پردیسی کی زندگی، خوابوں کی قیمت

صبح کے کہرے میں جب شہر ابھی انگڑائی لے رہا ہوتا ہے، ایک پردیسی جاگ چکا ہوتا ہے۔ اس کی آنکھیں نیند سے بوجھل ہوتی ہیں، مگر دل میں اک عزم کی آگ سلگ رہی ہوتی ہے۔ وہ بستہ اٹھاتا ہے، اجنبی زبانوں اور چہروں کے شہر میں قدم رکھتا ہے اور اپنے اندر چھپے سارے جذبات کو قفل لگا کر دنیا کے شور میں گم ہو جاتا ہے۔
پردیسی ہونا فقط کسی دوسرے ملک یا شہر میں کام کرنا نہیں ہوتا، بلکہ یہ ایک مسلسل قربانی، ایک نہ ختم ہونے والی جدوجہد اور بے شمار جذبات کو دفن کرنے کا نام ہے۔ پردیسی کی زندگی کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ وہ دو دنیاؤں کے بیچ لٹکا ہوتا ہے، ایک دنیا وہ جہاں اس کا دل بستا ہے اور دوسری وہ جہاں اس کا جسم مصروفِ عمل ہوتا ہے۔
جب کوئی جوان اپنے گھر، اپنے ماں باپ، بہن بھائی اور اپنے وطن کی مٹی چھوڑ کر کسی دور دیس کا رخ کرتا ہے، تو وہ صرف نوکری کی تلاش میں نہیں نکلتا، وہ اپنے پورے خاندان کا خواب کندھوں پر اٹھا کر نکلتا ہے۔ مگر وہ خواب اسے قیمت مانگتے ہیں، نیند کی، سکون کی اور سب سے بڑھ کر اپنوں کی قربت کی۔
پردیسی کی عید خاموش ہوتی ہے۔ جمعے کی نماز تنہا مسجد کے کونے میں پڑھی جاتی ہے۔ جب پاکستان میں سہ پہر کی چائے پہ اہلِ خانہ گپ شپ میں مصروف ہوتے ہیں، وہ کسی ریستوران میں تنہا کھانا کھاتے ہوئے موبائل کی سکرین پر گھر کی تصویریں دیکھ رہا ہوتا ہے اور کبھی کبھار تو ویڈیو کال کے اس پار ماں کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں، لیکن بیٹا صرف مسکرا کر کہتا ہے: "میں ٹھیک ہوں، فکر نہ کریں"۔
یہ "ٹھیک ہوں" کا جملہ پردیسی کی زندگی کا سب سے بڑا جھوٹ ہوتا ہے۔
پردیس میں وقت نہیں رکتا، مگر دل وہیں ٹھہرا رہتا ہے جہاں بچپن کی گلیاں، ماں کے ہاتھ کی خوشبو، باپ کا سایہ اور دوستوں کی آوازیں تھیں۔ مگر پھر بھی، ہر دن وہ نئی ہمت کے ساتھ اٹھتا ہے، کیونکہ اسے پتہ ہے کہ اس کی محنت سے کسی کا گھر چل رہا ہے، کسی بہن کی شادی ہو رہی ہے، کسی بچے کی فیس ادا ہو رہی ہے اور ماں باپ کو دوا میسر ہے۔
جب برسوں بعد پردیسی واپس آتا ہے، تو گلیاں تو ویسی ہی ہوتی ہیں، مگر کچھ چہرے چھوٹ چکے ہوتے ہیں۔ بچپن کے دوست کسی اور دائرے میں ہوتے ہیں۔ دل چاہتا ہے وقت تھم جائے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وقت کبھی کسی کے لیے نہیں رکتا، خاص طور پر پردیسی کے لیے۔
یہی زندگی ہے ایک پردیسی کی: قربانی، خاموشی اور خدمت۔ شاید وہ سب کچھ حاصل نہ کر پائے جو خوابوں میں تھا، مگر وہ اپنی محنت سے کئی خوابوں کو حقیقت کا روپ دے دیتا ہے اور شاید، اسی کا نام زندگی ہے – دوسروں کے لیے جینا، خود کو مٹا کر خوشیاں بانٹنا۔
پردیسی صرف اپنے لیے نہیں جیتا۔ وہ اپنے پیچھے پورا ایک خاندان، ایک دیس، ایک تہذیب سنوار رہا ہوتا ہے۔

