Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Haseeb Ahmad
  4. Pakistan Ka Difa, Bharat Ki Jarhiat Aur Sindh Taas Muahida Ka Tanazur

Pakistan Ka Difa, Bharat Ki Jarhiat Aur Sindh Taas Muahida Ka Tanazur

پاکستان کا دفاع، بھارت کی جارحیت اور سندھ طاس معاہدہ کا تناظر

جنوبی ایشیا میں پاکستان اور بھارت کے تعلقات ہمیشہ کشیدگی، تنازع اور اعتماد کے فقدان کا شکار رہے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد سے لے کر آج تک دونوں ممالک کے درمیان کئی جنگیں، سرحدی جھڑپیں اور سیاسی محاذ آرائیاں ہو چکی ہیں۔ بھارت نے جب بھی جارحیت کی راہ اپنائی، پاکستان نے دفاع کے ساتھ ساتھ حکمت، تدبر اور قومی یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔

1947 میں کشمیر کے تنازع نے دو نئے آزاد ممالک کو ایک طویل محاذ آرائی میں الجھا دیا۔ بھارت نے مہاراجہ ہری سنگھ کی نام نہاد دستاویزِ الحاق کی بنیاد پر کشمیر پر قبضہ کیا، جس کے خلاف پاکستانی قبائلیوں نے مزاحمت کی۔ 1965 کی جنگ میں بھارت نے بین الاقوامی سرحد پار کی، لیکن پاکستانی افواج نے اسے تاریخی شکست سے دوچار کیا۔ لاہور، سیالکوٹ اور چناب کے محاذ پر پاکستانی جوانوں نے اپنے خون سے حب الوطنی کی نئی داستانیں رقم کیں۔

1971 کی جنگ، اگرچہ ایک اندرونی بحران کا تسلسل تھی، لیکن بھارت کی کھلی مداخلت نے پاکستان کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ تاہم، بھارت کی عسکری برتری وقتی ثابت ہوئی اور پاکستان نے جلد ہی دفاعی قوت بحال کر لی۔ کارگل کی جنگ اور اس کے بعد ہونے والی جھڑپوں میں پاکستان نے واضح پیغام دیا کہ وہ نہ صرف اپنا دفاع کرنا جانتا ہے بلکہ دشمن کو جواب دینا بھی۔

2016 اور 2019 میں بھارت کی جانب سے سرجیکل اسٹرائیکس اور بالاکوٹ حملے کے دعوے کیے گئے، جنہیں پاکستان نے نہ صرف زمینی حقائق سے جھوٹا ثابت کیا بلکہ بھارتی پائلٹ ابھی نندن کی گرفتاری اور پھر خیرسگالی کے تحت رہائی نے دنیا کو پاکستان کی اخلاقی برتری اور امن پسندی کا عملی نمونہ دکھایا۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارت ہر بار اپنی شکست سے سبق کیوں نہیں سیکھتا؟ آخر کب تک وہ اپنی ناکامیوں کو میڈیا کے زور پر کامیابیوں میں چھپانے کی کوشش کرتا رہے گا؟ ہر محاذ پر پاکستان نے بھارت کو آئینہ دکھایا، چاہے وہ عسکری میدان ہو، سفارتی فورم ہو یا عالمی عدالتیں۔ مگر بھارت کا رویہ ایک ضدی بچے جیسا ہے، جو اپنی ہٹ دھرمی کو قومی پالیسی سمجھ بیٹھا ہے۔

1960 میں ہونے والا سندھ طاس معاہدہ، پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم کے حوالے سے ایک عالمی سطح پر تسلیم شدہ معاہدہ ہے، جس پر عالمی بینک نے ضامن کی حیثیت سے دستخط کیے۔ اس کے تحت تین مغربی دریا (سندھ، جہلم، چناب) پاکستان کے لیے مخصوص کیے گئے، جب کہ تین مشرقی دریا (راوی، ستلج، بیاس) بھارت کے حصے میں آئے۔

بھارت کی جانب سے اس معاہدے کو ختم کرنے یا اس میں رخنہ ڈالنے کی کوشش نہ صرف بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہوگی بلکہ خطے میں ماحولیاتی، زرعی اور انسانی بحران کو جنم دے سکتی ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور پانی اس کی معیشت کی شہ رگ ہے۔ پانی روکنا یا اس کے بہاؤ میں خلل ڈالنا پاکستان کے لیے کھلی جنگ کے مترادف ہوگا۔

پاکستان نے ہمیشہ عالمی برادری کے ساتھ کھڑے ہو کر پرامن طریقے سے مسائل حل کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن اگر بھارت نے سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے کی کوشش کی تو یہ نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی امن کے لیے بھی خطرہ ہوگا۔ بھارت کو سوچنا ہوگا کہ خطے کی خوشحالی امن میں ہے، نہ کہ آبی جارحیت میں۔

پاکستان کی دفاعی تیاری، سفارتی تدبر اور قومی اتحاد یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ نہ صرف اپنے وجود کا تحفظ کرنا جانتا ہے بلکہ دشمن کو ہر محاذ پر مؤثر جواب دینے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ بھارت کو یہ حقیقت تسلیم کرنی ہوگی کہ پاکستان 1947 کا نومولود نہیں رہا۔ یہ ایک ایٹمی طاقت ہے، جو نہ صرف اپنا دفاع کرسکتا ہے بلکہ دشمن کو اسی کی زبان میں جواب دینے کا حوصلہ اور صلاحیت بھی رکھتا ہے۔

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan