Maa, Rab Ki Atta, Insan Ki Panah
ماں، رب کی عطا، انسان کی پناہ

جب دنیا کی پہلی سانس لی جاتی ہے، تو ماں کی گود ہی وہ پہلا مسکن بنتی ہے جہاں محبت، تحفظ اور سکون کے پہلے معانی سمجھ آتے ہیں۔ ماں، صرف ایک لفظ نہیں، بلکہ جذبات، قربانی، ایثار، دعا اور بےلوث محبت کا ایسا سمندر ہے جس کی گہرائی کا اندازہ عقل نہیں لگا سکتی۔
ماں وہ ہستی ہے جو خود دکھ سہتی ہے مگر اولاد کو مسکرانا سکھاتی ہے، جو خود ساری زندگی تھکن، قربانی، مجبوریوں اور صبر کی چادر اوڑھے رہتی ہے، مگر کبھی اپنی زبان پر شکوہ نہیں لاتی۔
اسلام نے ماں کو وہ عظمت عطا کی ہے جسے لفظوں میں مکمل طور پر بیان کرنا ممکن نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ماں کی مشقت کو قرآنِ مجید میں نہ صرف ذکر کیا بلکہ اس پر شکر ادا کرنے کا حکم دیا:
"وَوَصَّيُنَا الُإِنسَانَ بِوَالِدَيُهِ، حَمَلَتُهُ أُمُّهُ وَهُنًا عَلَىٰ وَهُنٍ، وَفِصَالُهُ فِي عَامَيُنِ، أَنِ اشُكُرُ لِي وَلِوَالِدَيُكَ، إِلَيَّ الُمَصِيرُ" (سورۃ لقمان: 14)
"اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کی وصیت کی، اس کی ماں نے کمزوری پر کمزوری جھیل کر اسے پیٹ میں رکھا اور دو سال میں دودھ چھڑایا۔ پس میرے اور اپنے والدین کے شکر گزار بنو"۔
یہاں ماں کی جسمانی مشقت کو خود ربّ العالمین نے اس انداز سے بیان کیا ہے کہ کوئی انسان اس عظمت سے انکار نہیں کر سکتا۔
نبی کریم ﷺ کی سیرتِ طیبہ میں بھی ماں کی عظمت کا ایک درخشندہ پہلو موجود ہے۔ جب ایک صحابی نے پوچھا: "يا رسولَ اللهِ، مَن أحقُّ الناسِ بحسنِ صَحابتي؟"
آپ ﷺ نے جواب دیا: "أمُّكَ"
تین مرتبہ یہی جواب دیا، پھر چوتھی بار فرمایا: "أبوك"
(صحیح بخاری و مسلم)
اس حدیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ماں کا حق باپ سے تین گنا زیادہ ہے۔ کیوں؟ کیونکہ اُس نے جنم دیا، پالا، راتوں کو جاگی، بیماری میں تڑپی اور اولاد کی ہر خوشی کے لیے اپنی خواہشات قربان کیں۔
ماں کی دعا وہ نادیدہ طاقت ہے جو زمین سے اٹھ کر آسمانوں کو چیرتی ہے۔ کتنے ہی لوگ ہیں جن کی کامیابیاں ماں کی بے زبان دعاؤں کا نتیجہ ہیں۔
حضرت موسیٰؑ کی والدہ نے جب اپنا بچہ دریائے نیل میں ڈال دیا، تو اللہ تعالیٰ نے اس قربانی کے بدلے نہ صرف موسیٰؑ کو محفوظ رکھا بلکہ اُسی محل میں پرورش دی جہاں ان کے قتل کا فرمان جاری کیا گیا تھا۔
ماں کی دعائیں مقدر بدلتی ہیں، راستے کھولتی ہیں اور زندگی کو برکتوں سے بھر دیتی ہیں۔ جو شخص ماں کی خدمت میں جُت جاتا ہے، اس کے لیے دنیا و آخرت دونوں آسان ہو جاتی ہیں۔
بدقسمتی سے آج کے جدید معاشرے میں ماں کے مقام کو وہ اہمیت نہیں دی جا رہی جو اسلام نے دی ہے۔ مصروفیات، شہرت، دولت، موبائل فون اور دیگر مشغلے ہمیں ماں سے دور لے جا رہے ہیں۔
ہم اُن ہاتھوں کو نظرانداز کر بیٹھے ہیں جنہوں نے بچپن میں ہمارا بخار پونچھا اور اُن آنکھوں کو بھلا دیا جنہوں نے راتوں کو جاگ کر ہمیں نیند دی۔
اگر آج آپ کے پاس ماں زندہ ہے تو آپ خوش نصیب ترین انسان ہیں۔ اُس کے پاؤں دبانا، اُس سے محبت کرنا، اُس کی بات سننا، یہ سب صرف خدمت نہیں، بلکہ عبادت ہے اور اگر ماں دنیا سے جا چکی ہے، تو اُس کے لیے دعا، صدقہ اور اس کی زندگی کی نیک یادوں کو زندہ رکھنا، اولاد کا فرض ہے۔
ماں کے قدموں تلے جنت ہے، یہ کوئی شاعرانہ جملہ نہیں، بلکہ سچائی ہے جو زبانِ نبوت سے نکلی ہے۔ ماں سے بڑھ کر دنیا میں کوئی دولت نہیں اور ماں کی رضا سے بڑھ کر کوئی خوشی نہیں۔
آئیے! اپنے دلوں کو ماں کی محبت سے بھر لیں، اُس کی خدمت کو زندگی کا مقصد بنا لیں اور اُس کے چہرے پر مسکراہٹ کو اپنی کامیابی کا پیمانہ مان لیں

