Imran Khan Ki Rehai Ki Nayi Tehreek
عمران خان کی رہائی کی نئی تحریک

پاکستان کی سیاسی تاریخ ایک بار پھر ایک ایسے موڑ پر کھڑی ہے جہاں عوامی اُمنگیں، سیاسی حکمتِ عملیاں اور ریاستی ردِ عمل ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) نے اپنے چیئرمین عمران خان کی رہائی کے لیے ایک نئی سیاسی تحریک کا آغاز کر دیا ہے۔ یہ تحریک ایسے وقت میں جنم لے رہی ہے جب ملک معاشی، سیاسی اور سماجی بحرانوں کے نرغے میں ہے اور عوام کی امیدیں ماند پڑتی دکھائی دے رہی ہیں۔
تحریکِ انصاف ماضی میں متعدد بار سڑکوں پر آئی، خاص طور پر 2022 کا لانگ مارچ عوام کو متحرک کرنے کی ایک بڑی کوشش تھی، مگر 9 مئی 2023 کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال نے پارٹی کی تنظیمی ساخت اور عوامی ساکھ پر گہرے اثرات ڈالے۔ اب جب کہ پارٹی قیادت نے ایک نئی تحریک کے آغاز کا اعلان کیا ہے، تو یہ سوال جنم لیتا ہے کہ آیا یہ حکمتِ عملی پہلے کی مانند کامیاب ہوگی یا حالات اسے ایک بار پھر محدود کر دیں گے؟
اس بار پی ٹی آئی نسبتاً منظم، سنجیدہ اور محتاط دکھائی دیتی ہے۔ قیادت کی سطح پر رابطے بحال ہو رہے ہیں، عدالتی فورمز پر اپیلیں دائر کی جا رہی ہیں اور ساتھ ہی عوامی جلسوں اور میڈیا کے ذریعے بیانیہ پیش کیا جا رہا ہے۔
عوامی ردِعمل کسی بھی سیاسی تحریک کی کامیابی یا ناکامی کا اصل پیمانہ ہوتا ہے۔ سابقہ تحریکوں کے دوران عوام کی بڑی تعداد عمران خان کے حق میں سڑکوں پر نکلی، لیکن 9 مئی کے بعد عوامی اعتماد کو شدید دھچکا لگا۔ اب حالات مختلف ہیں، مہنگائی، بےروزگاری اور معاشی جمود عوام کو بےچین کر چکا ہے، لیکن کیا یہ بےچینی عمران خان کے لیے پھر سے ایک سیاسی قوت بن سکتی ہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے جس کا جواب وقت دے گا۔
یہ حقیقت اب کسی سے پوشیدہ نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے تعلقات میں خلیج گہری ہو چکی ہے۔ موجودہ حکومت جو مختلف جماعتوں کے اتحاد پر مبنی ہے، کسی بھی قسم کی احتجاجی تحریک کو کچلنے کے لیے قانونی و انتظامی اقدامات پہلے ہی زیر غور رکھتی ہے۔ امکان یہی ہے کہ اس بار بھی سیکیورٹی ادارے لانگ مارچ یا دھرنوں کے خلاف سختی سے پیش آئیں گے، لیکن اگر تحریک پُرامن، مربوط اور غیر جارحانہ ہو تو حکومت کے لیے اسے روکنا اتنا آسان نہ ہوگا۔
قانونی ماہرین کی رائے ہے کہ عمران خان کی رہائی کا انحصار مکمل طور پر عدالتی فیصلوں پر ہے۔ البتہ یہ بھی سچ ہے کہ سیاسی دباؤ، عوامی رائے اور بین الاقوامی توجہ عدلیہ کے فیصلوں پر بالواسطہ اثر ڈال سکتے ہیں۔ اگر تحریک زور پکڑتی ہے اور قومی سطح پر ہم آہنگی پیدا کرتی ہے تو عمران خان کی رہائی کے امکانات روشن ہو سکتے ہیں، بصورتِ دیگر، معاملہ ایک بار پھر قانونی الجھنوں میں الجھ سکتا ہے۔
یہ نئی تحریک محض عمران خان کی رہائی کی جدوجہد نہیں، بلکہ پی ٹی آئی کے سیاسی وجود، عوامی اعتماد اور قومی سیاست میں اس کے مستقبل کی جنگ ہے۔ اگر پارٹی قیادت اس موقع کو ذمہ داری، نظم و ضبط اور بصیرت کے ساتھ سنبھال لے تو یہ تحریک ایک نئی صبح کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ وگرنہ، یہ بھی تاریخ کے اوراق میں ایک اور ناکام سیاسی کوشش بن کر رہ جائے گی۔
پاکستان کی سیاست میں جو بھی تبدیلی آئے، وہ صرف نعروں سے نہیں بلکہ حکمت، تحمل اور عوامی بھلائی کی حقیقی خواہش سے ہی ممکن ہے۔ عمران خان کی رہائی کی تحریک صرف ایک سیاسی جدوجہد نہیں، بلکہ ایک امتحان ہے: عوام کا، ریاست کا اور سب سے بڑھ کر پی ٹی آئی کی قیادت کا۔

