Allahumma Labbaik
اللّٰھم لبیک

ہر سال جب ذو الحج کے ایام قریب آتے ہیں، تو دنیا کے کونے کونے سے لاکھوں مسلمان "لبیک اللّٰھم لبیک" کی صدائیں بلند کرتے ہوئے بیت اللہ کی طرف رواں دواں ہوتے ہیں۔ ان کے چہرے پر ایک خاص نور، آنکھوں میں عقیدت اور دل میں عشقِ الٰہی کی تپش ہوتی ہے۔ حج صرف ایک فریضہ نہیں، یہ ایک روحانی انقلاب کا نام ہے جو انسان کے باطن کو جھنجھوڑ دیتا ہے، گناہوں سے پاک کر دیتا ہے اور بندے کو اپنے خالق کے قریب تر لے آتا ہے۔
جب حاجی احرام باندھتے ہیں تو وہ دنیاوی رتبوں، مال و دولت، رنگ و نسل اور قومیت کے فرق کو پسِ پشت ڈال کر ایک ہی لباس میں ملبوس ہو جاتے ہیں۔ یہ لباس اتحاد، عاجزی اور مساوات کا علمبردار ہوتا ہے۔ عرفات کے میدان میں جب لاکھوں دل ایک ساتھ جھکتے ہیں، تو وہ منظر انسانیت کے لیے اتحاد، امن اور محبت کا پیغام بن جاتا ہے۔
مگر اس عظیم عبادت کی ادائیگی کوئی آسان مرحلہ نہیں۔ خاص طور پر شدید گرمی کے موسم میں حج کے ارکان کی ادائیگی انتہائی صبر آزما بن جاتی ہے۔ سورج کی تپش، 45 سے 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک کا درجہ حرارت، لمبے پیدل سفر، رش، پانی کی طلب اور مسلسل جسمانی مشقت، یہ سب کچھ حاجیوں کے لیے ایک بڑی آزمائش بن جاتا ہے۔ مگر ان کی زبان پر شکوہ نہیں، صرف "لبیک" کی صدا ہوتی ہے۔ یہ منظر ایمان کو تازہ کر دیتا ہے کہ کس طرح ایک بندہ اپنے رب کی رضا کے لیے ہر تکلیف کو خوشی سے گلے لگاتا ہے۔
طوافِ کعبہ ہو یا صفا و مروہ کی سعی، رمیِ جمار ہو یا قربانی، ہر عمل میں حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کی بے مثال قربانیوں کی جھلک نظر آتی ہے۔ حج ہمیں سکھاتا ہے کہ اللہ کی رضا کے لیے ہر چیز قربان کی جا سکتی ہے، یہاں تک کہ اپنی محبوب ترین چیز بھی۔
حج کے بعد جب حاجی وطن واپس لوٹتے ہیں، تو وہ صرف جسمانی سفر کرکے نہیں آتے، بلکہ روحانی طور پر نکھر کر، ایک نئے انسان بن کر آتے ہیں۔ ان کے چہرے پر سکون، دل میں خدا کا قرب اور لبوں پر شکرکے کلمات ہوتے ہیں۔ یہ حج کا اثر ہوتا ہے جو باقی ساری زندگی ان کی شخصیت میں جھلکتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم حج کے ان روحانی، اخلاقی اور معاشرتی پیغامات کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔ حج کا مقصد صرف مناسک کی ادائیگی نہیں، بلکہ ایک ایسی تبدیلی ہے جو انسان کے اندر سے شروع ہو کر معاشرے تک پھیلتی ہے۔
آئیے! ہم بھی اپنے دل میں حج کی خواہش جگائیں اور اگر اب تک حج نہیں کیا تو دعا کریں کہ اللہ ہمیں یہ عظیم سعادت نصیب فرمائے اور اگر کبھی کر چکے ہیں، تو اپنے حج کو زندگی بھر کے لیے ایک سبق، ایک روشنی بنا کر دل میں زندہ رکھیں۔
لبیک اللّٰھم لبیک۔۔

