Mere Dard Ko Jo Zuban Milay (2)
میرے درد کو جو زباں ملے (2)
مُحترم قارئین! پچھلے کالم میں آپ کو عُمیر علی ولد نُور علی کی آپ بیتی پڑھنے کو مِلی۔ آج دوسرے نوجوان کی آپ بیتی پڑھیں۔
میرا نام "عُمیر احمد ولد نثار احمد" ہے۔ میری پیدائش لاہور کے نامور مذہبی گھرانے میں ہوئی۔ والدِ محترم ایک بڑی مذہبی جماعت کے لیڈر تھے۔ ہمارے گھر پر اکثرو بیشتر بڑے لیڈران اور حکومتی و سیاسی شخصیات کی بیٹھک ہوتی تھی۔ والد صاحب کبھی کبھار اُن محافل میں مُجھے بھی شرکت کراتے تھے۔ جس سے میرا تعارف سیاسی طبقے سے ہو چلا تھا۔ یوں کہیے کہ سیاسی سیڑھی پر پہلا قدم رکھ ہی لیا تھا۔ لگتا تھا والد صاحب نے پُوت کے پاؤں پالنے میں دیکھ لئے تھے۔
ایک مُمتاز انگریزی میڈیم سکول سے او لیول کرنے کے بعد اے لیول بھی امتیازی نمبروں سے کیا۔ دو سال کے بعد لاہور کی انجینئرنگ یونیورسٹی میں پانچ سال کے لئےفروکش ہو گیا۔ والد صاحب کی جماعت کا چونکہ اِس درسگاہ میں خاصا اثرو رسوخ تھا اس لیے طلبہ تنظیم کی نظامت حاصل کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ آئی۔ اِس طرح سیاسی سفر کا باظابطہ آغاز کیا۔ پڑھائی تو ثانوی شے تھی اصل کام تو غنڈہ گردی اور دوسروں کی زندگی میں مُداخلت تھا۔ انجینئرنگ مُکمل ہوتے ہی میں اپنی دیرینہ خواہش کو پُورا کرتے ہوئے امریکہ کی طرف کُوچ کر گیا۔
امریکہ میں میرے شب وروز بہت مصروف تھے۔ امریکہ ایسی نگری ہے جہان دِن اور رات دونوں جاگتے ہیں۔ یونیورسٹی اور پارٹ ٹائم نوکری کرتے کرتے دو سال بیت گئے پتا بھی نہ چلا۔ پھر ایک مُناسب نوکری مِل گئی اور زندگی ایک ڈگر پر چلنے لگی۔ روزگار کے گورکھ دھندے چل رہے تھے۔ اللہ کے فضل و کرم سے شادی کا مرحلہ، اُس کے بعد مسائلِ شہریت بھی باآسانی نِمٹ گئے۔ اللہ نے اولاد کی نعمت سے بھی نواز دیا۔ گویا زندگی روانی سے گُزر رہی تھی۔
چند سال اسی طرح گُزرے اور والد صاحب کا پیغام آیا کہ واپس آؤ کُچھ ضروری کام نپٹانے ہیں۔ تو ہم نے واپسی کا قصد کیا۔ والد صاحب کی خواہش تھی کہ اُن کی سیاسی گدّی کو میں سنبھالوں۔ چونکہ بچپن سے سیاست میں آنے کا شوق تھا تو کشا کشا اس ڈگر پر قدم رکھ دیے۔ اپنی مُنفرد لہجے، ولائتی تعلیم، پاکستان کے سیاسی نظام کی آگاہی اور سب سے بڑھ کر والد ِ مُحترم کی مضبوط سیاسی بُنیاد کے باعث جلد ہی سیاسی حلقوں میں نمایاں جگہ بنالی۔
مُلک میں انتخابات کی فضا گرم تھی۔ میری جماعت نے مُجھے ٹکٹ دیا اور اپنی دھواں دار تقریروں سے میں نے اپنی الیکشن مہم چلائی۔ امریکہ سے کمائے گئے ڈالر اور پارٹی فنڈ کی کمی نہ تھی۔ اپنی جماعت کے مدرسوں کے طلباء نے جلسے جلوسوں کو رونق بخشی۔ اپنی تقریروں میں میں اپنی جیت کو دینِ اسلام کی فتح قرار دیتا تھا۔ اور ہماری بھولی عوام ہم کو ووٹ دینا اپنا دینی فریضہ سمجھتی تھی۔ قصہ مختصر وہ الیکشن میں نے باآسانی جیت لیا اور سیدھا اسمبلی میں جا پہنچا۔ رُکن اسمبلی بن کر ترقیاتی فنڈ کا "مُناسب" اِستعمال کیا اور اپنے کاروبار کو بھی "مُناسب" ترقی کی راہ دکھائی۔ اب اپنے بیٹے کو بھی میں اپنے والد ِ محترم کی طرح میدانِ سیاست کے لئے تیار کر رہا ہوں۔ میرے والد کی محنت سے میرا مُستقبل سنور گیا اور میں نے اُس کو اگلی نسل میں مُنتقل کردیا۔
معزز قارئین دونوں آپ بیتیاں آپ نے پڑھ لیں۔ اب فیصلہ میں آپ پر چھوڑتا ہوں کیا عمیر علی ولد نور علی کو حق نہیں تھا کہ وہ اپنی تعلیم مُکمل کرکے اپنے بوڑھے ماں باپ کا سہارا بنتا۔ کیوں اُس کو جنّت کے سبز باغ دکھا کر اس کے عیال سے اُس معصوم کو اپنے مفاد کی بھینٹ چڑھا دیا۔ اگر وہ جہاد تھا تو عُمیر احمد ولد نثار احمد نے اپنی زندگی اُس کے نام کیوں نہ کی۔ سن 80 کے نام نہاد افغان جنگ کو ناعاقبت اندیش لوگوں نے جہادکا نام دے کر اپنی تجوریاں بھریں اور اپنی اولاد کو اُس سے کوسوں دُور رکھا۔ اپنے عمیر کو اُس آگ سے بچا کر کتنے عمیر اِس آگ میں جھونک ڈالے۔ اور آج تک پوری قوم اُس وقت کے ناعاقبت اندیش افراد کے فیصلوں کا خراج بھر رہی ہے اور اللہ جانے کب تک بھرے گی۔
سن 80 کی دہائی جیسے واقعات دوبارہ رونما ہو رہے ہیں۔ امریکی اور خلیجی مُمالک ایران پر چڑھائی کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ آج اُن کو پھر کرائے کے کندھے چاہیئے۔ اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے اور ہمارے حُکمرانوں کو صحیح فیصلہ کرنے کی توفیق دے۔ اگر اِس بار بھی ہم پرائی جنگ میں کودے تو میرے منہ میں خاک تو شاید کوئی نوحہ لکھنے والا بھی نہ بچے۔