Lazzat e Kaam O Dehan
لذّتِ کام و دہن
ہمارے ایک عزیز کولیگ جناب راشدغوری صاحب بھی ہماری طرح معدے سے سوچتے ہیں۔ پچھلے ڈیڑھ سال سے ہماری ٹیم کو وہ اندرون لاہور کی مشہورِ زمانہ نہاری کھلانے پر بضِد تھے لیکن ہر دفعہ کوئی نہ کوئی وجہ آڑے آجاتی اور نہاری کا پروگرام کھٹائی میں پڑ جاتا۔ لیکن کُچھ دن پہلے اُنہوں نے تُرپ کا پتہ کھیلا اور ہمارے ہر دلعزیز جناب تنضیر مرزا صاحب کو رضامند کرلیا۔ بس پھر کیا تھا ساری پراجیکٹ مینیجمنٹ ٹیم نے آنے والے ہفتے کی نیند کو قُربان کرکے نہاری کھانے کے لئے کمر کس لی آخر جناب تنضیر مرزا صاحب کا کہا کون ٹال سکتا ہے۔ ہمارے قبیلے کے سرخیل جناب عرفان لودھی صاحب نے بھی اِس پُکار پر لبیک کی صدا لگا دی۔ وہ الگ بات ہے کے صدا لگانے کے باوجود اُنہوں نے قدم رنجہ نہ فرمائے جِس کا قلق مُدتوں رہے گا تاوقتیکہ عرفان لودھی صاحب گُلو خلاصی کے لئیے ایسی ہی دعوتِ شیراز کا انتظام نہ کر دیں۔ کامران افتخار، فیصل عثمانی، سلمان خان، منصور حق اور طلحہ صدیقی خود تو نہ آسکے لیکن انہوں نے رُوحانی طور پر ہمارے ساتھ رہے۔ پھر کیا ہونا تھا ہفتہ کی مُبارک گھڑی آ گئی، سب لوگ لوھاری دروازے پر نہاری کھانے جمع ہوگئے۔ تجربے کی بُنیاد پر غوری صاحب نے تھالِ نہاری پروسنے کا نعرہِ مستانہ بُلند کیا۔
اللہ ہماری ٹیم کی صحت کو نظر نہ لگائے جب کھانے کا دور چلا تو تنضیر صاحب، اُن کے ہم رکاب مابدولت اور فہیم عمران نے جو قصد باندھا تو مورچہ چھوڑنے والے آخری سپاہیوں میں سے تھے۔ فہیم نے تو تمام پچھلے ریکارڈ تہ برد کرنے کے ٹھان رکھی تھی۔ راقم نے بھی اپنے معالج کی ہدایات کو پسِ پُشت ڈالا اور مغز، نلی ہمراہ دوآشتہ نہاری پر خوب بے دردی سے ہاتھ صاف کیا۔
اسدچیمہ صاحب نے جب آغاز کیا تو لگا کہ بس آج تو حاجی نہاری والے کی خیر نہیں، البتہ خلافِ توقع جلدی ہار مان گئے جس کو دیکھ کر سب ہی انگُشت بدنداں رہ گئے۔ ہم لوگ تو اس سوچ میں غلطاں تھے کہ چیمہ صاحب فائنل بھی کھیلیں گے لیکن اُنہوں نے لیگ میچ بھی پُورا نہ کھیلا۔
امریکا پلٹ معظم خان صاحب نےبھی بڑا مقابلہ کرنے کی کوشش کی لیکن رہے نہ امریکی پانی پینے کے عادی، مردِ ناتواں جلد ہی ہمت ہار گئے۔ بس یہی ایک کام ہے جس میں امریکا بہادر ہم دیسی لوگوں کے ہم پلہّ نہ ہوسکا اور اگر اللہ نے چاہا کبھی ہوگابھی نہیں۔
خالد شفیق اور علی رضا نے بڑے نپے تُلے انداز میں اپنی اننگز کھیلی۔ بھئی ڈھلتی عُمر کا تقاضہ بھی کوئی چیز ہوتا ہے۔
اُسامہ بٹ اور فہد الیاس دونوں نے اپنے نام اور علاقے کی لاج نہ رکھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ دونوں نہاری نہیں بلکہ کسی ہائی کلاس ریستوراں میں چُھری کانٹے سے پیزا کھانے آئے ہیں۔
آخر میں آتے ہیں راشد غوری صاحب کی طرف، انہوں نے کسی بھی ذی روح کو گُمان بھی نہ ہونے دیا کہ وہ کھا نے میں کم اور انتظام میں زیادہ مگن ہیں۔ اُن کی جُنبش ابرو پر غیر محسوس طریقے سے ساری تھالیاں ہر تھوڑی دیر بعد یکایک لبالب بھر جاتی تھیں۔
بعد از نہاری لوھاری کی فقید المثال لسّی کا دور چلا جس نے خمارِ گندُم و نلی و مغز نہاری کو دو آشتہ کر ڈالا۔ اصل مزہ تو تب آیا جب اس خراجِ خمار کا وقت آیا۔ بجٹ سے پہلے بجٹ کی کیفیت طاری ہو گئی۔
یہاں غوری صاحب اور باقی جماعت کا نظریاتی اِختلاف کُھل کر سامنے آیا۔ غوری صاحب عموماً نہاری نوش فرمانے کے بعد اِستراحت فرماتے ہیں جبکہ دیگر اہلِ علاقہ اندرونِ لاہور کی گلیوں کی خاک چھاننے اور مسجد وزیر خان کے دورے پر بضد تھے۔ اکثریت کی رائے کو مُقّدم مان کر سب نے جناب وسیم رؤف صاحب کی معّیت میں لوہاری سے دہلی دروازے تک کا قصد کیا۔ وسیم صاحب اُسی علاقے کے جم پل ہیں، جس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے سارے قافلے کو شہر کی تنگ گلیوں میں مرزے کی طرح پھرایا گیا۔ گرمی اور بھاری ناشتے کے باعث چھوٹا سفر بھی طویل لگنے لگا۔ اِس موقع پر اسد چیمہ صاحب نے عقلمندی کا ثبوت دیا اورچُپکے سے اِس یاترا سے دستبردار ہو نے میں غنیمت جانی۔ قصہ مُختصر ہم لوگ اچھی طرح کھانے اور پھر گرمی کی چہل قدمی کے بعد اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے۔
اِس طرح کی مُلاقاتیں کافی مُفید ہوتی ہیں۔ اس سے آپ کو اپنے قبیل کے افراد کو اچھی طرح جاننے کا موقع مِلتا ہے اور سب سے بڑھ کر جو دماغی دباؤ پورا ہفتہ کام کرنے کے بعد آپ پر بُری طرح اثرانداز ہوتا ہے اُس سے چُھٹکارا پانے کا یہ بہترین ذریعہ ہے۔