Bahen Baaz Aa Ja
بہن باز آجا
ہائے میں مر گئی، یہ جوڑوں کا درد تو میری جان ہی لےکر چھوڑے گا۔ اب دیکھو یہ مُوا فُون کب سے چیخ رہا ہے۔ مجال ہے کسی کے کان پر جُوں بھی رینگی ہو۔ اے بہو، اے بشرٰی ارے کوئی تو دیکھ لو۔ اب یہ کام بھی مجھ بُوڑھی کو کرنا ہوگا۔ ہائے۔۔۔ آ رہی ہوں۔
خاتون1 : اسلامُ وعلیکم! کیسی ہیں آپ۔
خاتون 2: کر م ہے مالک کا آپ سناؤ۔
خاتون 1: بس کیا کروں گُھٹنے کے درد نے دُہرا کیا ہے۔
خاتون2 : اوہ اللہ شفا دے گا۔ اور بچّوں کی سنایئے کیسے ہیں۔
خاتون 1: کیا بتانا، بہن بُوڑھی ہو گئی ہوں۔ فالتوسامان کی طرح ڈالا ہے۔ سارا دن کام کروں تو ٹھیک، جہا ں آرام سے بیٹھوں تو بہوئیں بولنے لگتی ہیں۔ نہ بیٹے پوچھتے ہیں نہ ہی اُن کی اولاد۔
خاتون2: بس جی کیا بتاؤں کیسا زمانہ آگیا ہے۔ لیکن کچھ اچّھے لوگ باقی ہیں۔ جیسے میرا داماد اتنا اچّھا ہے سارا خرچہ میری بیٹی کے ہاتھ میں ہے۔ اور بیٹے کو دیکھو کیسا ناہنجار ہے، ساری تنخواہ بیوی کے ہاتھ پر دھر دیتا ہے۔
خاتون 1: میری بیٹی مُشکل سے ہفتہ رہ کر گئی تو وہا ں سُسرال میں ساس اور یہاں بھابھیوں کے تیور بگڑ گئے۔ میں نے بھی کہ دیا کہ جب تک میں زندہ ہوں دیکھتی ہوں کون منہ بناتا ہے۔ اور دیکھو میری بڑی بہوکو ابھی ہفتہ آیا نہیں اور تیار ہیں جانے کو۔ میں بھی جانے دوں دیکھ لینا۔
خاتون2: بس بہن زندگی اسی کا نام ہے کبھی کے دن بڑے کبھی کی رات بڑی۔
خاتون 1: اے رضیہ کی چھوٹی بیٹی کی شادی ہونے والی ہے۔
خاتون2: ہیں ابھی تو وہ بچّی ہے۔ اُس سے بڑی تو دو بہنیں ہیں۔ ایسی کیا آفت آ گئی رضیہ کو۔
خاتون1: بس بی میرا منہ نہ کھلوایو۔ میں تو روز اس کو کالج جاتا دیکھتی ہوں۔
خاتون2: توبہ توبہ کیا زمانہ آ گیا ہے- ہمارے دور میں تو دیدوں کا پانی نہ مرا تھا۔ آگ لگے ایسے فیشن اور ایسے ٹی وی کو۔
خاتون 1: اس موئے ٹی وی، کمپیوٹر اور موبائل کو خدا غارت کرے بچّے بچیوں کا بیڑہ غرق کیا ہے۔ میری سب سے چھوٹی بہو دن بھر ان چیزوں میں لگی رہتی ہے۔ نہ کام کی فکر نہ بُزرگوں کا لحاظ۔ اوپر سے میرا بیٹا بہو کی مُٹھی میں ہے۔ صحیح کہتی ہے ذکیہ کہ میری بہویئں راج کرتی ہیں اور بیٹیاں مُشّقت۔
خاتون2: ہاں ذکیہ سے یاد آیا پچھلے اتوار کو شکیلہ کی بیٹی کی شادی پر ملاقات ہوئی تھی۔ ہمیشہ کی طرح لیپا پوتی کرکے آئی تھی۔ اپنی عمر کا ذرا بھی خیال نہ کیا اُس نے۔ توبہ میری پوری بوڑھی گھوڑی لال لگام لگ رہی تھی۔
خاتون 1: گئی تھی میں ذکیہ کی بیٹی کو دیکھنے اپنے عارب کے لیئے۔ توبہ ایک تو اتنا چھوٹا قد، پھر دبتا ہوا رنگ، سب سے بڑھ کر دہانہ اتنا بڑا کہ نہ ہی پوچھو۔ سب کچھ برداشت ہو جاتا اس نے میک اپ بھی ماں کی طرح تھوپا تھا۔ اب خاندان میں مذاق اُڑوانا تھا کیا۔ ویسے میں بیٹیوں والی ہوں کسی کی بیٹی کے بارے اناپ شناپ نہ بولوں ہوں۔
خاتون 2: دیکھو باتوں باتوں میں بھول ہی گئی، بڑا افسوس ہوا آپ کے شوہر کے انتقال کا۔ کیا بیمار تھے۔
خاتون1: ارے بہن باز آ جا۔ دماغ تو نہیں چل گیا۔ میرے شوہر ماشااللہ حیات ہیں۔ ابھی کل ہی تو اسلام آباد سے واپس آیئں ہیں۔
خاتون 2: اے بہن میں نے تو عقیلہ کو فون لگایاتھا۔
خاتون1: میں عقیلہ نہیں رشیدہ ہوں، میں سمجھی تُم رفیعہ ہو۔ بی بی تُم نے غلط فون لگا دیا ہے یہاں کوئی عقیلہ وقیلہ نہیں رہتی۔ توبہ ہے بول بول کر سر میں درد کر ڈالا۔ اوپر سے کھڑے کھڑے میری ٹانگیں الگ ٹُوٹ گئیں۔
خاتون 2: میں بھی کوئی رفیعہ شفیعہ نہیں ہوں اور نہ ہی تُم سے بات کرنے کا مُجھے شوق ہے۔ امّاں معاف کرو۔
خاتون1 : امّاں !امّاں ! ارے امّاں ہو گی تمہاری ماں، بہن تو خود، فون رکھ۔۔۔