Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hania Irmiya
  4. Zimmedar Kaun?

Zimmedar Kaun?

ذمے دار کون؟

تقریباً دو سال پہلے کی بات ہے کچھ فرصت تھی تو میں مختلف پرائیویٹ کالجز کے فیس بک پیجز وزٹ کرنے کے ساتھ ساتھ، ان کے تعلیمی پروگرام اور ملازمت کے اشتہارات دیکھ رہی تھی۔ اشتہارات میں طالبعلموں کے داخلوں سے متعلق دلچسپی کا مواد قابلِ ستائش تھا اور ان کالجز میں ملازمت کے جتنے بھی اشتہارات تھے ان آسامیوں پہ اساتذہ کی قابلیت کے نکات ایسے تھے کہ مجھ جیسی نالائق انسان درخواست برائے ملازمت دینے سے پہلے دس بار سوچے اور گیارہویں بار درخواست دینے کا ارادہ ملتوی کر دے۔

خیر کالجز کے سوشل صفحات دیکھنے کے دوران میری نظر ایک پرائیویٹ کالج کی جانب سے دئیے گئے اشتہار پہ پڑی کالج انتظامیہ کی تین چار آسامیوں سے متعلق پوسٹ تھی بوجہ اخلاقی قیود میں یہاں اس کالج کا نام لکھ نہیں سکتی، ورنہ میری دلی خواہش تھی کہ ایسے اداروں کو بےنقاب کیا جائے۔ جنھوں نے تعلیم کے نام پہ کاروبار کھول رکھے ہیں۔

اس پرائیویٹ تعلیمی ادارے کی بہت سی شاخیں پورے لاہور میں پھیلی ہوئی ہیں کچھ جگہوں پہ انٹرمیڈیٹ اور کچھ جگہوں پہ مختلف یونیورسٹیز سے ایفیلیشن لے کر ڈگری پروگرامز بھی کروائے جا رہے ہیں۔ ان کی ایک ملازمت کے اشتہار میں کمنٹس میں جو گفتگو ہوئی اس کا خلاصہ پشں خدمت ہے۔۔

ایک صاحب اس کالج کی طرف سے بار بار ملازمت کے اشتہارات دئیے جانے کے باعث نالاں تھے کہ یہ لوگ بےروزگار لوگوں کی امیدوں اور خوابوں سے کھیل رہے ہیں آئے دن اشتہار دیتے ہیں انٹرویو کے نام پہ لوگوں کو اکھٹا کرتے ہیں اور بعد میں کوئی جواب دئیے بنا رخصت کر دیتے ہیں چلیں یہ اعتراض تو کچھ حد تک قابلِ برداشت تھا کیونکہ بہت سارے تعلیمی اور غیر تعلیمی ادارے ایسے کھیل کھیلتے رہتے ہیں ملکی بدحالی پہ افسوس اس وقت ہوا جب ایک خاتون نے اس ادارے کے متعلق لکھا کہ یہ لوگ انٹرویو کے لیے آنے والے امیدواروں سے دو سو یا تین سو روپے یہ کہہ کر اینٹھتے ہیں کہ یہ روپے آپ کی رجسٹریشن کے لیے، لیے جا رہے ہیں پھر ڈپٹی ڈائریکٹر صاحب انٹرویو کرتے ہیں اور یہ کہہ کر ٹرخا دیا تھا کہ آپ کا سی-وی بمعہ سرٹیفکیٹ اور ڈگریریز ہیڈ آفس ارسال کر دیا جائے گا جو بھی جواب آیا اس متعلق آپ کو اطلاع دے دی جائے گی مگر اس کے بعد جواب نہیں آتا۔

اس خاتون کا مزید یہ کہنا تھا کہ چونکہ مجھے اس کالج کا راستہ معلوم نہیں تھا ملازمت کا اشتہار دیکھا، دئیے گئے نمبر پہ رابطہ کیا، تو دو دن بعد آنے کا بتایا گیا۔ آنے جانے کے لیے چار سو روپے رکشے کا کرایہ ادا کیا، تین سو روپے انٹرویو کے نام پہ لے لیے گئے، مگر ملازمت ملنے کے دس فیصد بھی چانسز نہیں، تین بار میں نے خود رابطہ کیا تو تیسری بار ادارے کی جانب سے جواب ملا آسامی اب خالی نہیں رہی ڈائریکٹر صاحب نے بھرتیاں کر لی ہے۔

سفید پوشوں کی مجبوریاں اور ان کے استحصال پہ دل تڑپ اٹھا۔ بڑھتی ہوئی بےروزگاری اور مہنگائی نے ایک عام انسان کی کمر توڑ دی ہے تعلیم یافتہ ڈگریاں لیے دھکے کھا رہے ہیں اور آسامی خالی نہیں (نو ویکینسی) کا جواب ان کا مذاق اڑاتا نظر آتا ہے۔

ایسا ہی ایک اور مذاق دو ماہ پہلے یکھنے کو ملا۔ ایک پرائیویٹ تعلیمی ادارے میں ہیڈ آفس کے افسران کی آمد اور حصول وابستگی (ایفیلیشن) کے لیے انھوں نے خالی آسامیوں کو بھرنے اور زیادہ سے زیادہ قابل افراد کی موجودگی ظاہر کرنے کے لیے، پانچ سے آٹھ مرد وخواتین کو انٹرویو کی غرض سے بلوایا، انھیں چائے اور دوپہر کا کھانا دیا گیا تاکہ وہ زیادہ دیر بیٹھنے پہ اعتراض نہ کریں ان کی فائلز بمعہ سی-وی، تعلیمی کوائف، تقرری حکم نامہ فوری تیار کی گئیں کہ اگر ہیڈ آفس کے لوگ کسی بھی مضمون سے متعلق اساتذہ سے ملنا چاہیے تو ان کے پاس سٹاف موجود ہوں۔ پھر ہیڈ آفس سے نمائندے آئے خیر دورہ کیسا تھا اور وابستگی (ایفیلیشن) دینے والے اداروں کے روئیوں بارے میں پھر کبھی تفصیلی کالم لکھوں گی جیسے ہی وہ افسران گئے بلائے ہوئے امیدواروں کو یہ کہہ کر رخصت کر دیا گیا کہ وہ سبھی ملازمین کی فائلز ساتھ لے گئے ہیں جیسے ہی جواب دیں گے آپ کو مطلع کر دیا جائے۔ اور تنخواہوں متعلق تو ابھی فی الحال میری خاموشی بہتر ہے۔

ہمارے ملک میں اسوقت معاشی بدحالی کی شرح خطرناک حد تک بڑھ رہی ہے تعلیم یافتہ نوجوان ملازمت کے لیے سڑکوں کی دھول چاٹ رہے ہیں ایک آسامی کے انٹرویو کے لیے تیس لوگوں کی لائن لگی ہوتی ہے ادارے کی جانب سے زیادہ انٹرویو لینے پہ کہا یہ جاتا ہے کہ قابل فرد ہی منتخب کریں گے کہ ہر ایرے غیرے کو بھرتی کر لیں تو اس کا بہترین جواب یہ ہے کہ اگر تعلیمی بینادیں مضبوط اور تعلیمی قواعد مستحکم ہوں تو صرف قابل افراد ہی ڈگریاں پکڑے ملیں گے ہر ایرا غیرا نہیں۔ اور تعلیمی تنزلی کی اہم وجوہات میں سے سرفہرست بےروزگاری بھی ہے جب فقط حصولِ روزگار کے لیے لوگ تدریس کا پیشہ اختیار کریں گے تو نسلوں کی تعلیم و تربیت پھر نہ ہونے کے برابر ہی ہو گی۔

Check Also

Pak French Taluqat

By Sami Ullah Rafiq