Urdu Zuban Ghair Zaroori Ya Majboori
اردو زبان غیر ضروری یا مجبوری
1868 میں جب مدراس(متحدہ ہندوستان) میں اردو زبان کے خلاف تحریک شروع ہوئی، تب انتہا پسند ہندوؤں کا مطالبہ تھا کہ اردو کی جگہ ہندی کو سرکاری زبان کا درجہ دیا جائے۔
اس مطالبے سے ہندو مسلم اتحاد میں گہری دراڑ پڑی۔ بہت سارے مسلمان کانگرس سے الگ ہو گئے۔ کیونکہ انکے لیے اردو زبان کی حفاظت حساس مسئلہ تھا۔ اردو زبان اس وقت پورے ہندوستان کے مقامی لوگوں کی ترجمان تھی۔
مقامی لوگوں سے رابطہ کرنے کے لیے انگریزوں کو بھی مجبوراً اردو زبان سیکھنا پڑی۔ کسی بھی جماعت کی مطالعہ پاکستان مضمون کی کتاب پڑھ لیں، قیام پاکستان کے اغراض و مقاصد میں"اردو زبان کے تحفظ" کا نکتہ ملے گا۔
اردو زبان مسلمانوں کی شناخت تھی۔ مگر اسی شناخت کا حال قیام پاکستان کے بعد دیکھ لیں۔ اردو زبان کی ایسی بدحالت تو انگریزوں اور ہندوؤں کے ساتھ رہتے ہوئے نہ تھی جیسی اب ہے۔
"اردو ضروری ہے۔ اردو مسلمانوں کی پہنچان ہے" ایسے بہت سے نعرے لگائے گئے۔ عظیم راہنماؤں نے اردو زبان کو کیا کیا خواب نہ دکھائے کہ ملک بنتے ہی اس زبان کی حیثیت ایسی ملکہ کی سی ہو گی جس کے سر پہ سورج اور قدموں میں چاند ہوتا ہے۔ مگر قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی سرکاری زبان کس کو بنایا جائے یہ اہم مسئلہ تھا۔ مشرقی پاکستان کی خواہش تھی کہ بنگالی ملک کی سرکاری زبان ہو اگر ایسا ہو جاتا تو پنجاب کو سنبھالنا مشکل تھا۔
حکومتی اہلکاروں نے پچس سال کے لیے انگریزی کو ہی ملک کی سرکاری زبان کا درجہ دے دیا تاکہ ان سالوں میں فیصلہ کیا جاسکے کہ اردو کو سرکاری زبان بنانا ضروری ہے بھی یا نہیں۔
کیسی مضحکہ خیز بات ہے جس زبان کی اہمیت متحدہ ہندوستان میں انگریزی اور ہندی سے بھی زیادہ تھی جس زبان کے تحفظ کے لیے ایک الگ وطن کا مطالبہ کیا گیا وہی زبان اپنے وطن میں کیسی بے آبرو ہوئی۔
اکثر غیر سرکاری تنظیمیں آج بھی مطالبہ کرتی ہیں کہ اردو کو ملک کی واحد اور سرکاری زبان کا درجہ دیا جائے۔ اور یہ مقام اردو زبان کو ملنا بھی چاہیے مگر کیسے؟ جس ملک میں ترقی کرنے اور کامیاب ہونے کے لیے انگریزی زبان پہ مہارت لازمی ہے وہاں اردو کیسے ضروری ہوئی۔ بڑی بڑی کمپنیوں کے ملازمت اشتہار دیکھ لیں کسی میں بھی اردو زبان پہ مہارت کی شرط نہیں ہوگی ہاں انگریزی میں ماہر ہونا ضروری ہے۔
اچھی ملازمت جس کی تنخواہ چالیس ہزار سے ایک لاکھ تک ہے اس ملازمت کے حصول کے لیے انگریزی زبان پہ عبور ضروری ہے۔ اردو تو گھر کی مرغی ہے جس کی اوقات آج دال برابر بھی نہیں۔ اور انگریزی زبان پہ عبور اردو میڈیم سکول کی کتابیں پڑھ کر حاصل نہیں ہوتا جس سکول کی استانیاں ہی فر فر انگریزی بولنا نہ جانتی ہوں، جن کو انگلش گرائمر پڑھانے کے لیے پہلے خود پڑھنا پڑے پھر وہ بچوں کو کام کروائیں اس کے باوجود بھی استانی سے غلط انگلش املا اور گرائمر کروانے کی گنجائش نکل سکتی ہے۔
بچہ انگلش میڈیم سکول سے پڑھا ہو۔ کمپیوٹر چلانے اور انگلش بولنے میں ماہر بو۔ تب ہی وہ معاشی لحاظ سے کامیاب زندگی گزار سکتا ہے۔ مغربی ممالک میں تعلیم کے حصول کے لیے طالب علم کو اردو گرائمر آتی ہے وہ اردو زبان دانی کے اصول جانتا ہے یا نہیں، کوئی سوال نہیں کرے گا۔ اگر پوچھیں گے تو IELTS ٹیسٹ کے بارے میں۔
پاکستان میں بہت سارے ایسے تعلیمی ادارے، دفاتر، کمپنیاں موجود ہے جہاں دفتری اوقات میں اردو کی بجائے انگریزی میں بات کرنا ضروری ہے۔ انٹرویو میں أس نمائندے کو مسترد کر دیا جاتا ہے جسے انگریزی میں سوالات کے جواب دینے نہیں آتے۔
تو ایسے حالات میں کیسے مطالبہ کیا جاسکتا ہے کہ آپ اردو زبان کو سرکاری زبان بنائیں۔ اگر بنا بھی دیں تو کیا پاکستان کی معاشی حالت اور بین الاقوامی ساکھ اس قابل ہے جب کبھی ہمارے حکمران، بیوروکریٹس، سرکاری افسران، کھلاڑی، فنکار، لکھاری یا بڑی شخصیات ملک سے باہر جائیں اور اردو میں بات کریں تو بات سننے والے اپنے ساتھ ترجمہ کرنے والوں کو بٹھائیں کہ ہمیں اردو کا انگریزی ترجمہ کر کے بتایا جائے۔ نہیں بالکل نہیں وہ ایسا کبھی نہیں کریں گے بلکہ ملک سے باہر جانے والے ہر چھوٹے بڑے، عام و خاص کو انگریزی سیکھنی پڑے گی۔