Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hania Irmiya
  4. U Turn (1)

U Turn (1)

یو ٹرن (1)

ملکی سیاست میں اس بار عدلیہ کی مداخلت نے ایسا یو ٹرن لیا ہے کہ عمران نیازی پچھلے سارے یو ٹرن بھول گیا۔ سب سے پہلے تو یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ قلم کار کسی جماعت کے نہیں ہوتے اگر ہوتے ہیں تو وہ پھر قلم کے ساتھی نہیں ہوتے شفاف صحافت کے لیے صحافی یا مبصر کا صرف اپنے قلم کے ساتھ مخلص ہونا ضروری ہے۔

میرا تعلق نہ تو پی پی سے ہے نہ نون لیگ سے نہ پی ٹی آئی سے، اور کسی اسلامی سیاسی جماعت سے بھی قطعی نہیں۔ میرا تعلق میری سوچ اور میرے قلم سے ہے۔ ملک کے سیاسی حالات جس تیزی سے تباہی کی طرف جا رہے ہیں مجھے ڈر ہے ہم معاشی اور اخلاقی لحاظ سے دیوالیہ ہو جائیں گے۔

تو آتے ہیں اصل عنوان کی طرف، یکم رمضان، اور ماہ اپریل 2022 بتاریخ 3 اپریل بروز اتوار ملکی سیاست میں ایسا واقعہ پیش آیا جس نے تمام ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ میں اس سے پہلے والے کالم بعنوان "تحریک عدم اعتماد کا دن" میں اس دن کی مکمل تفصیل دے چکی ہوں تو بات بھی وہیں سے شروع کرتے ہیں وزیراعظم صاحب کی ایڈوائس پہ صدر نے اسمبلیاں توڑ دیں۔ اپوزیشن ہکا بکا کہ بساط الٹ کیسے گئی حالانکہ عدم اعتماد تحریک بسے پہلے کے دنوں میں، میرے ذاتی مشاہدے کے مطابق شیخ رشید کبھی بوکھلائے، تو کبھی گبھرائے سے نظر آئے مگر فواد چودھری کا اعتماد قابلِ داد ہے ان کا غرور و ناز ایک فیصد بھی نیچے نہ گرا۔

جمعہ یکم اپریل سے پہلے عمران خان صاحب بھی اس سارے معاملے میں پریشان نظر آتے تھے مگر جمعے کے بعد ان کی خود اعتمادی ایسی بحال ہوئی جیسے انھیں کہیں سے غیبی مدد مل گئی ہو انھوں نے اتوار کے روز قوم کے لیے ایک سرپرائز کا اعلان بھی کر دیا اتوار کے روز عوام کو سڑکوں پہ آنے اور احتجاج کرنے کی کال بھی دی عمران ٹینشن سے بھرپور ان دنوں میں بھی عوام کے قومی جذبات سے خوب کھیلتے رہے۔

دوسری طرف اپوزیشن پراعتماد تھی کیونکہ اکثریت سمیٹے بیٹھی تھی مقررہ وقت پر اتوار کے روز اجلاس شروع ہوا۔ ابھی کاروائی شروع ہوئے آدھا گھنٹہ ہی گزرا تھا کہ خبر آگئی ڈپٹی اسپیکر نے اجلاس کی قرارداد اس بنا پہ مسترد کر دی کہ اسمبلی میں بیٹھے سبھی ارکان ملک غدار ہیں عدم اعتماد قرارداد سازش مبنی ہے اور یہ کہہ کر جناب اسمبلی سے اٹھ کر چلے گئے جبکہ اصل معاملہ تو کچھ اور ہی تھا پی ٹی آئی رکن ہو اور عمران کے حکم پہ لبیک نہ کہے، ممکن ہی نہیں قاسم سوری اب چاہے جتنی مرضی کہانیاں سناتے رہیں تین اپریل کو انھوں نے جو کچھ بھی کیا وہ پہلے سے پلان تھا۔

یہ ہی وہ سرپرائز تھا جس کا اعلان عمران خان پہلی ووٹنگ سے دو دن پہلے کر چکے تھے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ والی ویڈیو میں نے تین بار دیکھی اور ہر بار ہی مجھے قاسم سوری میں عمران خان کی جھلک نظر آئی۔ وہی لب و لہجہ، انداز، حرکات و سکنات، یوں لگ رہا تھا انھیں خوب تیاری کروا کر کے اسمبلی میں بھیجا گیا سابقہ حکومتی ارکان اسمبلی سے چلے گئے۔

کچھ دیر تو اپوزیشن حیران و پریشاں رہی جب سمجھ آئی تو ڈھنڈورا مچ گیا کہ آئین پاکستان کی خلاف ورزی کر دی گئی ہے نیوز چینلز پہ بیٹھے تبصرہ نگاروں نے عوام کو سمجھانا شروع کیا کہ آخر اصل معاملہ کہاں خراب ہوا ہے میں نے بہت سے تجزیہ نگاروں کے تبصرے سنے جنھوں نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو غلط کہا مگر اینکر عمران خان کا کہنا تھا ڈپٹی اسپیکر آئین کے مطابق یہ اختیار رکھتا ہے کہ وہ اجلاس کی قرارداد مسترد کرسکتا ہے اور اسکی رولنگ کو سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔

قاسم سوری نے قرارداد کو ریاست کے خلاف سازش خیال کیا لہذا وہ تحریک مسترد کرنے کے مجاز ہیں، حالانکہ اپوزیشن کو تو فوراً اس اقدام کے خلاف عدالت سے رجوع کرنا چاہیے تھا مگر ملک کی سب سے بڑی عدالت نے ازخود نوٹس لیا چیف جسٹس آف سپریم کورٹ نے اتوار کے دن سینئیر ججز کو اپنے گھر بلا لیا۔

شائد اپوزیشن گزشتہ عرصہ سے نیب کی عدالتی کارروائیاں اتنی بھگت چکی تھی کہ اب وہ درست معاملے میں بھی عدالت سے رجوع کرنے سے کترا رہی تھی۔

سوموار کو عدالت کی باقاعدہ کاروائی شروع ہوئی ان دنوں بھی حکومت کو یقین تھا کہ عدالت ہمارے حق میں فیصلہ ہو گا مگر نتیجہ اس کے برعکس آیا اب کی بار عدالت نے یو ٹرن لیا اور سابقہ حکومت کے خلاف فیصلہ دے دیا اپنے اقتدار کے گزشتہ دور میں یہ پہلی بار ہوا کہ عمران نیازی کو مخالفین کی جانب سے یو ٹرن کا سامنا کرنا پڑا حکومت مایوس اور اپوزیشن کی جانب سے مٹھائیاں تقسیم۔۔

مگر سابقہ وزیر اعظم کا یوٹرن۔۔ پہلے وہ عدالت کا فیصلہ مایوسی کے ساتھ مان گئے اور خطاب میں بھی کہہ دیا مگر میں من و عن عدالت کے فیصلے کو قبول کرتا ہوں اس کے بعد بغاوت پہ اتر ائے عمران خان تین اپریل سے تقریباً دس دن پہلے سے میڈیا پہ بہت متحرک نظر آئے۔۔

(جاری ہے)

Check Also

Mitti Ki Khushbu

By Asad Tahir Jappa