Tarjeehat
ترجیحات
ہمارے یہاں شادی کے فیصلے کرتے ہوئے بہت ساری باتوں کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے سرِفہرست عورت کی عمر اور اس کا ماضی۔ عورت کی عمر کا تعلق براہ راست بچے کی پیدائش سے وابستہ ہے۔ میرے لیے یہ نکتہ انتہائی مضحکہ خیز ہے حالانکہ بچے پیدا ہوں گے یا نہیں، اس کا فیصلہ انسان کے ہاتھ میں ہے ہی نہیں۔ اس کے باوجود ایشین لوگوں کی سوچ اس نکتے پہ آ کر رک جاتی ہے کہ عورت اگر بڑی عمر کی ہو یا اسکا وزن زیادہ ہو تو بچوں کی پیدائش میں مشکلات آ سکتی ہیں اور اگر یہ معاملہ کسی مطلقہ یا بیوہ عورت سے متعلق ہو جو دوسری شادی کرنا چاہے تو ایسی عورتوں کو شادی سے پہلے ہی بانجھ تصور بھی کر لیا جاتا ہے کہ بڑی عمر کی ہے بچے پیدا نہیں کر سکتی۔
یہ مسئلہ صرف پاکستانی عورتوں کو ہی درپیش نہیں، میں نے اردگرد نگاہ کی تو اس سوچ کی جڑیں ہندوستانی معاشرے کی مٹی میں مضبوطی سے گڑی پائیں۔ دراصل یہ دونوں ممالک کہنے کو تو الگ ہو چکے ہیں مگر یہاں کے لوگوں کی سوچ وہی صدیوں پرانی مشترک ہے ان ممالک میں آج بھی بچوں کی پیدائش کی زیادہ تر ذمہ داری عورت کے سر تھوپ دی جاتی ہے اور مرد کو اس فرض سے بری الزمہ رکھا جاتا ہے جبکہ مذہب کہتا ہے کہ اولاد کو ہم نے مرد کی قسمت میں رکھا ہے اور سائنسی لحاظ سے لڑکا یا لڑکی ہونے کی قوت بھی مرد کے سپرمز میں ہے۔ اولاد اگر کسی مرد کے مقدر میں نہیں ہے تو چاہے وہ سولہ کی عمر والی سے شادی کرے یا پینتیس سال کی عورت سے۔ وہ اولاد سے محروم ہی رہے گا۔
بیوہ یا طلاق یافتہ عورت سے شادی کا فیصلہ ہمارے معاشرے میں اول تو کوئی کرنا پسند نہیں کرتا۔ ان عورتوں کی اپنے ہی گھرانوں میں بےوقعتی نہ کسی کو نظر آتی ہے اور نہ ہی اس بارے میں کوئی بات کرتا ہے کہ ان عورتوں کو بھی معاشرے میں عزت کے ساتھ جینے کا حق دو۔ طلاق یافتہ کی دوسری شادی کے ذکر پہ ہی اسکے ماضی کو کریدا جاتا ہے کہ کس وجہ سے اس عورت کے پہلے شوہر نے اسے اپنی زندگی سے دستبردار کیا؟
میں اکثر سوچتی ہوں کہ مرد اور عورت کی جسمانی ضروریات ایک سی ہیں جس طرح جسمانی ملاپ کی ضرورت مرد کو ہے یہ تعلق عورت کے مزاج اور ذہن کی تازگی کے لیے بھی اتنا ہی ضروری ہے مگر کبھی اس جانب کوئی سوچتا نہیں، یہ خواتین چاہے تیس کی عمر میں ازدواجی رشتے سے دستبردار کر دی جائیں یا چالیس کی عمر میں۔ ان کی جسم و ذہن کی ضرورت کو مکمل نظر انداز کیا جاتا ہے۔
مگر مرد کے جسمانی ملاپ کی ضرورت گھر کے ہر فرد کے ذہن میں گردش کرتی رہتی ہے کہ اس تنہا مرد کی زندگی کو مکمل کرنے کے لیے اس کی شادی کی جائے اور اس کاملیت کے لیے عمر کی کوئی خاص حد نہیں اور نہ ہی اولاد کی پیدائش کی شرط۔ میں ایک شخص کا اس بارے میں تجزیہ پڑھ رہی تھی اس کا کہنا تھا "کہ مرد ساٹھ سال تک بچے پیدا کر سکتا ہے جبکہ عورت کی اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت ایک محدود وقت تک ہے اور یہ صلاحیت پینتیس سال کی عمر کے بعد ہر سال مزید کم ہوتی جاتی ہے اس لیے بڑی عورت سے شادی کا فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کیا جاتا ہے"۔
زیادہ تر گھر کے ذمہ دار افراد کا اس طرف تو خیال بھی جاتا کہ وہ اپنے بیٹے یا بھائی کے لیے بڑی عمر کی کنواری، بیوہ یا مطلقہ عورت کا انتخاب کریں اور نہ ہی گھر والوں کی طرف سے کبھی کسی مرد کو یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ کسی مطلقہ یا بیوہ عورت کو اپنے لیے منتخب کرے۔ مرد کی شادی پہلی ہو، دوسری یا پھر تیسری پہلی ترجیح کنواری کم عمر عورت کو دی جاتی ہے۔
جبکہ عورت کی خواہش، سوچ کو یکسر نظر انداز کیا جاتا ہے میں یہ پہلو سمجھ نہیں پا رہی کہ عورت کی خواہش کو کیوں ترجیح نہیں دی جاتی؟ کیوں مرد کو ذہنی آسودگی کے ہر عمر میں شادی کے تعلق کی ضرورت ہے؟ اور اس ضرورت کی تکمیل کے لیے اس کی پسند کو اولیت دی جاتی ہے جبکہ عورت اپنے ہر فیصلہ کے لیے پابند ہے۔ یہاں تک کہ کسی بھی عمر کی لڑکی، عورت خود اپنے لیے شادی کا مطالبہ بھی نہیں کر سکتی۔