Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hania Irmiya
  4. Talaq

Talaq

طلاق

کسی بھی سماجی یا سیاسی شخصیت کی ذاتی زندگی پہ لکھنا کبھی بھی نہ تو میرا مشغلہ رہا ہے اور نہ ہی ترجیح۔ کیونکہ ذاتیات پہ لکھنا ایک تو غیر مہذب حرکت ہے اور دوسرا جب ہم کسی کے متعلق جانتے نہیں تو کیسے اسے میڈیا کی کہی سنی باتوں کے ترازو میں تول کر غلط یا صحیح کہہ سکتے ہیں۔

مگر دو دن پہلے ایک واقعہ پیش آیا ایک سماجی و سیاسی شخص کی تیسری طلاق کے متعلق جو خبریں سوشل اور نیوز میڈیا پہ گردش کر رہی ہی اس نے مجبور کر دیا کہ قلم کی نوک کو اس جانب لے جایا جائے یہاں میں کسی کا نام مینشن نہیں کروں گی۔

طلاق سے متعلق تقریباً ڈیڑھ ماہ قبل ایک ایسی خبر، جس نے عام لوگوں کے ہوش اڑا دئیے۔ وہ خبر پاکستانی ٹی وی ڈرامہ کی ایک خوبصورت اور خوبرو جوڑی کے متعلق تھی یہ ایک ایسا انکشاف تھا جس نے مجھے بھی ہلا کر رکھ دیا کتنے دن میں اس جوڑے کے لیے بے چین رہی ہر جگہ چیک کرتی رہتی تھی کہ کہیں سے مجھے ان کے درمیان ہوئی طلاق کی وجہ پتہ چل سکے۔

کیونکہ طلاق، شادی شدہ زندگی پہ ایک ایسا گرہن تھا جو وقتی طور پہ لگتا ہے کہ اندھیری رات کو کاٹ کر اجالے کی طرف لے جا رہا ہے مگر ہوش آنے پہ پتہ چلتا ہے کہ یہ اجالا اندھیرے سے زیادہ آنکھوں کو تکلیف دیتا ہے حالانکہ اگر میں اپنی بات کروں تو کسی سماجی یا سیاسی شخصیت سے متاثر ہونا میری فطرت میں شامل نہیں، اس کے باوجود کئی روز تک اس جوڑے کی علیحدگی نے مجھے بے چین رکھا۔

مگر اچھی بات یہ ہوئی کہ دونوں کی جانب سے ایک دوسرے پہ نہ تو الزامات لگائے گئے، نہ کسی کی کردار کشی ہوئی لوگ خود ہی مفروضات میں الجھے رہے معاشرے کی روایت کے مطابق طلاق کے فوری بعد مرد کو غلط کہنا لوگوں کا وطیرہ ہے اور کچھ عرصہ گزرنے کے بعد یہ سب عورت کو سہنا پڑتا ہے بالکل اسی دستور پہ چلتے ہوئے بہت سارے لوگوں نے اس مرد اداکارہ کو خوب جلی کٹی سنائیں مگر خاموشی کی دیوار نہ ٹوٹی اور اس جوڑے نے علیحدگی کو مقدر کا لکھا سمجھ کر عاجزی سے قبول کر لیا مگر ایک دوسرے کے متعلق ایک حرف بھی برا استعمال نہ کیا۔ یہاں تک کہ تہذیب و احترام کے معیار کو نہ صرف اس جوڑے نے بلکہ ان سے جڑے خونی رشتوں نے بھی برقرار رکھا اور نہ اپنی عزت پہ حرف آنے دیا نہ دوسرے کے دامن کو داغدار کیا۔

مگر دوسری طلاق کی خبر جس سے متعلق کئی روز سے چہ میگوئیاں ہو رہی تھیں دو روز قبل جب اسکی تصدیق ہوئی تو دونوں جانب سے یعنی میاں اور بیوی کی طرف سے ایک دوسرے پہ کیچڑ اچھالا جانے لگا ایک دوسرے کی کردار کشی یوں ہو رہی تھی جیسے طلاق کے بعد یہ دینی فریضہ ہے جسے پورا کیا جا رہا ہے اور ایسے ایسے انکشافات ہو رہے تھے جو بند کمروں میں کیے جانے چاہیے۔

نکاح کے بندھن میں بندھ جانے کے بعد دو افراد ایک دوسرے کے لیے قابل عزت ہو جاتے ہیں ایک کی تذلیل دوسرے کی بھی ذلت ہے اگر ذہنی ہم آہنگی نہ ہونے کے باعث یا کسی بھی مصلحت کے تحت رشتہ ختم ہو جائے تو کیا یہ لازم ہے کہ علیحدگی کے وقت اندرونی معاملات کو نہ صرف لوگوں کے سامنے لایا جائے بلکہ ان ساری باتوں کو سوشل میڈیا پہ ڈال کر گھر گھر ان خبروں کو پہنچایا جائے۔ سستی شہرت کے گندے اصول۔

ایسی طلاق کے معاملات جس طور انجام پاتے ہیں بےشک شروع میں اس کا اثر مرد کے کردار پہ بھی پڑتا ہے مگر عورت کا دامن تو عمر بھر صاف نہیں ہوتا عمر کے کسی نہ کسی حصے میں وہ داغ پھر سے سامنے آ جاتے ہیں جنھیں وقت مدھم کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔

طلاق یافتہ اور بیوہ خاتون کے لیے عام حالات میں اس قدامت پسند معاشرے میں اپنی انا اور خودی کو قائم رکھ کر جینا ناممکن ہے تو جب ایسے واقعات سامنے آتے ہیں تو وہ خواتین جو باکردار ہوں ان کے لیے بھی دوسری شادی کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو جاتا ہے۔

دوسری یا تیسری بار شادی کرتے وقت عورت کی تو شائد شرائط نہ ہوں مگر مرد کے لیے کسی مطلقہ یا بیوہ سے شادی کا فیصلہ کرنا آسان نہیں ہوتا، وہ کئی بار سوچتا ہے اور ہر بار ایک نیا سوال عورت سے متعلق اس کے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔

ہاں اگر کوئی ثواب کی نیت سے یہ فیصلہ کرے تو شائد اس کے لیے مشکل نہ ہو لیکن ضرورت کے تحت دوسری شادی کرنے والے کے تو مطالبات ہی بہت ہوتے ہیں اور اس طرح بدنام ہو کے لی جانے والی طلاقیں معاشرتی اقدار کو مزید پامال کرتی ہیں اور جائز ضرورت مند وہ خواتین جنھیں طلاق یا بیوہ ہونے کے بعد اپنے مستقبل کے لیے کسی مضبوط سہارے کی ضرورت ہوتی ہے ان کے لیے بھی مشکلات پیدا کرتی ہے۔

دعا ہے اللہ رب العزت سب کی عزتیں محفوظ رکھے اور سبھوں کو ازدواجی معاملات کی سمجھ بوجھ بھی عطا فرمائیں۔

Check Also

Aik Sach

By Kashaf Mughal