Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hania Irmiya
  4. Siasi Shaoor Ya Be Rah Ravi

Siasi Shaoor Ya Be Rah Ravi

سیاسی شعور یا بے راہروی

اپریل سے موجودہ دن تک میں تو یہ ہی سمجھنے سے قاصر ہوں آخر قوم کے جوان جس ڈگر جا رہے ہیں؟ پی ٹی آئی کے بقول قوم میں سیاسی شعور بیدار ہو چکا ہے۔

تو کیا تحریک انصاف کے بقول سیاسی شعور اس پنچھی کا نام ہے جو ملک کی ساکھ کو بالائے طاق رکھ کے کسی بھی جگہ پر پھڑپھڑانے لگتا ہے۔

سعودی عرب ہو یا لندن کی سڑکیں یا شاپنگ پلازے، سپورٹرز ملک کی عزت کی پرواہ کیے بغیر اپنے قائد کی خوشی کو اولین درجے پہ رکھتے ہیں۔ ٹوئٹر ایپ ہو یا سیاسی جلسے، زبان کا استعمال صرف زہر اگلنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔

سیاسی مخالفت اہم ہے یا ملک کی عزت، سعودی عرب میں چور چور کی آوازیں لگانے والے کیا اس جگہ کا تقدس بھول گئے تھے کہ یہاں تو بدترین گناہ گار کو بھی معافی ملتی ہے یہ وہ جگہ ہے جہاں انسان اپنے گناہوں کا بوجھ لاتا ہے اور خلاصی پا کے جاتا ہے اس جگہ پہ سیاسی حمایتوں نے ایسا ہنگامہ برپا کیا کہ صرف پاکستانی نہیں، دنیا دیکھتی رہ گئی۔

آئے دن لندن کی سڑکوں پہ محب الوطن پاکستانی جو شاید جانتے بھی نہیں کہ یہاں کی عوام کن جھمیلوں میں پھنسی ہوئی ہے وہ لندن میں چور چور کے ایسے نعرے لگا رہے ہیں جیسے بجلی کے بل وہ بھرتے ہیں پیڑول مہنگا وہ استمعال کر رہے ہیں مفلسی اور بےروزگاری سے تنگ خودکشی کرنے پہ وہ مجبور ہیں۔

ملک کی ایسی تذلیل پہ وہ کیوں شرمسار نہیں ہوتے، ملک کا وزیراعظم (وہ چاہے کسی بھی جماعت سے تعلق رکھتا ہو) اگر بیرونِ ملک چور کہہ کر پکارا جارہا ہے تو میرے ملک کی ساکھ پہ حرف آتا ہے پاکستان کا نام خراب ہوتا یے۔

ملک کی سڑکوں پہ عورتوں پہ آوازیں کسنا، شور شرابا مچانا یہ ہمارے ملک کی تہذیب نہیں۔ سیاسی راہنماؤں پہ اگر کوئی لکھتا ہے تو حمایتی کمر کس کے یوں کھڑے ہو جاتے ہیں اور کمنٹس میں ایسے ایسے جملے لکھے جاتے ہیں کہ الامان! قوم کی سیاسی تربیت پہ افسوس کرنے کو جی چاہتا ہے کہ یہ کونسا شعور ہے۔

قوم کو دھڑوں میں تقسیم کرکے کیا ملک مضبوط ہو رہا ہے اس طرح تو ملک سیاسی، معاشرتی اور اخلاقی ہر لحاظ سے دن بدن ختم ہوتا جا رہا ہے۔ سیاست نوجوانوں کی کیسی اچھی تربیت کر رہی ہے اس ملک میں کیا کسی بھی سیاسی جماعت کا قائد یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ باکردار اور کرپشن سے پاک ہے اس کا کردار کسی برائی سے آلودہ نہیں؟

جو جماعت برسرِ اقتدار آتی ہے وہ مخالفین پہ کرپشن کے ایسے مقدمے بناتی ہے جو عدالتوں میں کبھی ثابت ہی نہیں ہوتے، ہر مقدمے کی سال بہ سال تاریخیں بھگتی جاتی ہیں جس کا حاصل وصول کچھ نہیں۔ سوائے وقت کے ضیاع کے۔ نہ کرپشن ثابت ہوتی ہے نہ چوری کا ثبوت ملتا ہے۔ تو کس بنا پہ کسی کو چور کہا جائے؟ جلسوں کے خطابات کی بنیاد پہ۔۔ جس ملک کی عدلیہ اتنی کمزور ہو کہ سیاستدانوں پہ کرپشن مقدمات ثابت نہ کر سکے وہاں کی عوام واقعی ہی الزامات کے فیصلے سڑکوں پہ کرتی ہے۔

چور تو سبھی ہیں جو ملک میں کرسی کرسی کا کھیل کھلے عام کھیل رہے ہیں مگر آفرین ہے پاکستانی قوم، جو کٹھ پتلی کی طرح وہی تماشہ دنیا کو دکھا رہی ہے جو ان کے من پسند سیاسی راہنماؤں کی خواہش ہے اور اس کھیل تماشے کا فائدہ ملک کے دشمنوں کو کتنا ہو رہا ہے یہ مجھے بتانے کی ضرورت نہیں۔

Check Also

Mitti Ki Khushbu

By Asad Tahir Jappa